سنن النسائي - حدیث 4818

كِتَابُ الْقَسَامَةِ بَابُ دِيَةِ جَنِينِ الْمَرْأَةِ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نَعِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ: «أَنَّ امْرَأَةً خَذَفَتْ امْرَأَةً، فَأَسْقَطَتِ الْمَخْذُوفَةُ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ عَقْلَ وَلَدِهَا خَمْسَ مِائَةٍ مِنَ الْغُرِّ، وَنَهَى يَوْمَئِذٍ عَنِ الْخَذْفِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: «هَذَا وَهْمٌ وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ أَرَادَ مِائَةً مِنَ الْغُرِّ، وَقَدْ رُوِيَ النَّهْيُ عَنِ الْخَذْفِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4818

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت حضرت عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا کہ ایک عورت نے دوسری عورت کو پتھر دے مارا جس سے اس کا حمل ضائع ہوگیا۔ یہ مقدمہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اس بچے کی دیت پانچ سو بکریاں مقرر فرمائی، نیز اس دن آپ نے خذف سے روک دیا۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی رحمہ اللہ ) بیان کرتے ہیں: یہ وہم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا ارادہ ایک سو بکریاں کہنے کا ہو (لیکن غلطی سے پانچ سو بکریاں کہہ دیں)۔ اور خذف، یعنی کنکری پھینکنے کی ممانعت تو عبداللہ بن بریدۃ، عن عبداللہ بن مغفل سے مروی ہے۔ (اور وہ اگلی حدیث: ۴۸۱۹ ہی میں ہے۔)
تشریح : امام نسائی رحمہ اللہ کی طرح یہی بات امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں مذکورہ (پانچ سو بکریوں والی روایت بیان کرنے کے بعد فرمائی ہے۔ دیکھیے: (سنن ابی داود، الدیات، باب دیۃ الجنین، حدیث: ۴۵۷۸) احادیث صحیحہ کے معارض ہونے کے علاوہ مذکورہ حدیث ہے بھی مرسل جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے، اس لیے یہ قابل حجت نہیں۔ اصل مسئلہ وہی ہے جس کی وضاحت حدیث: ۴۸۱۷ کے فوائد ومسائل کے تحت ہو چکی ہے۔ واللہ اعلم امام نسائی رحمہ اللہ کی طرح یہی بات امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں مذکورہ (پانچ سو بکریوں والی روایت بیان کرنے کے بعد فرمائی ہے۔ دیکھیے: (سنن ابی داود، الدیات، باب دیۃ الجنین، حدیث: ۴۵۷۸) احادیث صحیحہ کے معارض ہونے کے علاوہ مذکورہ حدیث ہے بھی مرسل جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے، اس لیے یہ قابل حجت نہیں۔ اصل مسئلہ وہی ہے جس کی وضاحت حدیث: ۴۸۱۷ کے فوائد ومسائل کے تحت ہو چکی ہے۔ واللہ اعلم