سنن النسائي - حدیث 480

كِتَابُ الصَّلَاةِ صَلَاةِ الْعَصْرِ فِي السَّفَرِ صحيح أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ زُغْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ نَوْفَلَ بْنَ مُعَاوِيَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مِنْ الصَّلَاةِ صَلَاةٌ مَنْ فَاتَتْهُ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ قَالَ ابْنُ عُمَرَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هِيَ صَلَاةُ الْعَصْرِ خَالَفَهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 480

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل سفر میں عصر کی نماز کتنی ہے؟ حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ نے بیان کیا، میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’نمازوں میں سے ایک نماز ایسی ہے کہ جس سے وہ رہ جائے، وہ یوں سمجھے کہ اس کے اہل و مال لوٹ لیے گئے۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ وہ عصر کی نماز ہے۔ محمد بن اسحاق نے (حضرت لیث کی) مخالفت کی ہے۔
تشریح : محمد بن اسحاق اور لیث دونوں یزیدبن ابی حبیب کے شاگرد ہیں۔ دونوں سند کے بیان میں بھی مختلف ہیں اور متن کے بیان میں بھی۔ سند کا اختلاف تو یہ ہے کہ حضرت لیث کی روایت میں عراک کے حضرت نوفل سے سماع کی صراحت نہیں جبکہ محمد بن اسحاق کی روایت میں اسماع کی صراحت ہے۔ تطبیق سابقہ وضاحت میں گزر چکی ہے ۔ متن کا اختلاف یہ ہے کہ حضرت لیث کی روایت مرفوع ہے جبکہ محمد بن اسحاق کی روایت موقوف، یعنی صحابی کا قول ہے۔ ویسے ان میں تعارض نہیں ہے کیونکہ اصلاً تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی ہے۔ صحابی نے بھی یہی فتویٰ دیا۔ ظاہر ہے ایسے عام ہوتا ہے۔ اس سے روایت کے مرفوع ہونے میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا۔ محمد بن اسحاق اور لیث دونوں یزیدبن ابی حبیب کے شاگرد ہیں۔ دونوں سند کے بیان میں بھی مختلف ہیں اور متن کے بیان میں بھی۔ سند کا اختلاف تو یہ ہے کہ حضرت لیث کی روایت میں عراک کے حضرت نوفل سے سماع کی صراحت نہیں جبکہ محمد بن اسحاق کی روایت میں اسماع کی صراحت ہے۔ تطبیق سابقہ وضاحت میں گزر چکی ہے ۔ متن کا اختلاف یہ ہے کہ حضرت لیث کی روایت مرفوع ہے جبکہ محمد بن اسحاق کی روایت موقوف، یعنی صحابی کا قول ہے۔ ویسے ان میں تعارض نہیں ہے کیونکہ اصلاً تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی ہے۔ صحابی نے بھی یہی فتویٰ دیا۔ ظاہر ہے ایسے عام ہوتا ہے۔ اس سے روایت کے مرفوع ہونے میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا۔