سنن النسائي - حدیث 4795

كِتَابُ الْقَسَامَةِ كَمْ دِيَةُ شِبْهِ الْعَمْدِ، وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى أَيُّوبَ فِي حَدِيثِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قَتِيلُ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ أَوِ الْعَصَا، مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ أَرْبَعُونَ مِنْهَا فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4795

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل قتل شبہ عمد کی دیت کا بیان اور قاسم بن ربیعہ کی حدیث میں ایوب پر راویوں کا اختلاف حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جو غلطی سے مارا جائے شبہ عمد کی صورت میں، یعنی کوڑے اور ڈنڈے وغیرہ سے، اس کی دیت ایک سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔‘‘
تشریح : (۱) قتل کی تین صورتیں ہیں: (ا) قتل خطا: کسی نے تیر وغیرہ چلایا شکار کرنے کے لیے اچانک کوئی شخص آگے آگیا اور مر گیا یا کسی کو جانور یا بے جان چیز سمجھ کر تیر یا کوئی اور اسلحہ چلایا، بعد میں پتا چلا کہ وہ تو انسان تھا۔ (ب) شبہ عمد: لڑائی وغیرہ میں کسی کو قتل کرنے کی نیت نہ ہو اور نہ اسلحہ استعمال کیا گیا ہو۔ ڈنڈے سونٹے وغیرہ چلائے گئے لیکن اس سے کوئی شخص مر گیا۔ (ج) قتل عمد: نیت قتل کی ہو یا اسلحہ استعمال کیا گیا ہو کیونکہ اسلحے کا مقصد ہی قتل کرنا ہوتا ہے، لہٰذا دونوں صورتوں کو قتل عمد ہی کہا جائے گا۔ اگر نیت قتل کی ہو تو خواہ کسی بھی چیز سے قتل کیا گیا ہو، اسے قتل عمد ہی کہا جائے گا۔ احناف نے قتل عمد اور شبہ عمد میں صرف آلے کا فرق کیا ہے، یعنی آلہ قتل استعمال کیا گیا ہو، یعنی اسلحہ وغیرہ تو قتل عمد اور اگر ڈنڈے، سونٹے، پتھر، لوہے (جو نوکدار اور تیز نہ ہو) سے قتل کیا گیا ہو تو شبہ عمد۔ دونوں میں نیت قتل کی ہوتی ہے۔ لیکن ان کی یہ تعریف رسول اللہﷺ کے دور کے بہت سے واقعات کے خلاف پڑتی ہے، لہٰذا معتبر نہیں۔ خیر، قتل خطا کی صورت میں صرف دیت ہوگی اور وہ بوھی ہلکی جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ شبہ عمد میں بھی صرف دیت ہوگی لیکن بھاری جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ سو میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں۔ قتل عمد میں قصاص ہے اور اگر معافی مل جائے تو دیت شبہ عمد والی۔ یاد رہے ہر قسم کی دیت میں تعداد سو اونٹ ہی ہے۔ (۲) اس حدیث میں شبہ عمد کو خطا کہا گیا ہے کیونکہ اس میں بھی مقصد قتل کرنا نہیں ہوتا، صرف لڑائی مقصود ہوتی ہے۔ (۱) قتل کی تین صورتیں ہیں: (ا) قتل خطا: کسی نے تیر وغیرہ چلایا شکار کرنے کے لیے اچانک کوئی شخص آگے آگیا اور مر گیا یا کسی کو جانور یا بے جان چیز سمجھ کر تیر یا کوئی اور اسلحہ چلایا، بعد میں پتا چلا کہ وہ تو انسان تھا۔ (ب) شبہ عمد: لڑائی وغیرہ میں کسی کو قتل کرنے کی نیت نہ ہو اور نہ اسلحہ استعمال کیا گیا ہو۔ ڈنڈے سونٹے وغیرہ چلائے گئے لیکن اس سے کوئی شخص مر گیا۔ (ج) قتل عمد: نیت قتل کی ہو یا اسلحہ استعمال کیا گیا ہو کیونکہ اسلحے کا مقصد ہی قتل کرنا ہوتا ہے، لہٰذا دونوں صورتوں کو قتل عمد ہی کہا جائے گا۔ اگر نیت قتل کی ہو تو خواہ کسی بھی چیز سے قتل کیا گیا ہو، اسے قتل عمد ہی کہا جائے گا۔ احناف نے قتل عمد اور شبہ عمد میں صرف آلے کا فرق کیا ہے، یعنی آلہ قتل استعمال کیا گیا ہو، یعنی اسلحہ وغیرہ تو قتل عمد اور اگر ڈنڈے، سونٹے، پتھر، لوہے (جو نوکدار اور تیز نہ ہو) سے قتل کیا گیا ہو تو شبہ عمد۔ دونوں میں نیت قتل کی ہوتی ہے۔ لیکن ان کی یہ تعریف رسول اللہﷺ کے دور کے بہت سے واقعات کے خلاف پڑتی ہے، لہٰذا معتبر نہیں۔ خیر، قتل خطا کی صورت میں صرف دیت ہوگی اور وہ بوھی ہلکی جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ شبہ عمد میں بھی صرف دیت ہوگی لیکن بھاری جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ سو میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں۔ قتل عمد میں قصاص ہے اور اگر معافی مل جائے تو دیت شبہ عمد والی۔ یاد رہے ہر قسم کی دیت میں تعداد سو اونٹ ہی ہے۔ (۲) اس حدیث میں شبہ عمد کو خطا کہا گیا ہے کیونکہ اس میں بھی مقصد قتل کرنا نہیں ہوتا، صرف لڑائی مقصود ہوتی ہے۔