سنن النسائي - حدیث 4785

كِتَابُ الْقَسَامَةِ تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ} [البقرة: 178] صحيح قَالَ: الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ الْقِصَاصُ وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمُ الدِّيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ»: {كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى} [البقرة: 178] إِلَى قَوْلِهِ {فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ} [البقرة: 178] فَالْعَفْوُ: أَنْ يَقْبَلَ الدِّيَةَ فِي الْعَمْدِ، وَاتِّبَاعٌ بِمَعْرُوفٍ يَقُولُ: يَتَّبِعُ هَذَا بِالْمَعْرُوفِ، وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ، وَيُؤَدِّي هَذَا بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ ، {تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ} [البقرة: 178] «مِمَّا كُتِبَ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، إِنَّمَا هُوَ الْقِصَاصُ لَيْسَ الدِّيَةَ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4785

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل اللہ تعالیٰ کے فرمان: {فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ} کی تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں صرف قصاص تھا۔ دیت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ آیت اتاری: {کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی} ’’تم پر مقتولوں کے بارے میں برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے وہی آزاد (قاتل) اور غلام کے بدلے وہی غلام (قاتل) اور عورت کے بدلے وہی (قاتل) عورت (قتل کی جائے گیٖ۔ پھر جس شخص کو اس کے بھائی (مقتول کے ولی) کی طرف سے کچھ معافی مل جائے تو (معاف کرنے والے کے لیے) اچھے طریقے سے دیت طلب کرنا اور (قاتل کے لیے) اچھے طریقے سے ادائیگی کرنا ہے۔‘‘ معافی سے مراد یہ ہے کہ قتل عمد کی صورت میں مقتول کا ولی دیت لینا قبول کرے۔ اتباع بالمعروف سے یہ مراد ہے کہ مقتول کا ولی مناسب انداز میں دیت وصول کر لے اور دوسرا فریق اچھے طریقے سے ادائیگی کرے۔ {ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ رَحْمَۃٌ} ’’یہ تمھارے رب کی طرف سے آسانی اور رحمت ہے۔‘‘ یعنی اہل کتاب پر نازل کردہ حکم کے مقابلے میں جو کہ صرف قصاص تھا اور دیت (کی گنجائش) نہیں تھی۔
تشریح : (۱) ’’برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔‘‘ یعنی قصاص لینا جائز ہے۔ مشروع ہے، واجب اور ضروری نہیں بلکہ عام حالات میں معافی بہتر ہے۔ (۲) ’’آزاد کے بدلے وہی آزاد (قاتل)‘‘ دور جاہلیت میں بعض قوی قبائل اپنے غلام کو دوسروں کے آزاد اور اپنی عورت کو دوسروں کے مردوں کے برابر سمجھتے تھے۔ اپنے ایک آزاد کے بدلے میں وہ دوسروں کے دس، دس آزاد مار دیتے تھے۔ شریعت نے فرمایا: قاتل ہی قتل کیا جائے گا آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا مرد، ایک ہو یا زائد۔ بعض حضرات نے معنی کیے ہیں: ’’آزاد کے بدلے آزاد قتل کیا جائے گا، غلام کے بدلے غلام‘‘ حالانکہ یہ معنی غلط ہیں۔ مقتول کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے گا نہ کہ کوئی آزاد ی یا غلام۔ (۳) ’’کچھ معافی‘‘ یعنی قصاص معاف ہو جائے، خواہ سب اولیاء معاف کر دیں یا ایک ولی معاف کر دے۔ ایسی صورت میں قصاص نہیں، دیت ہوگی۔ (۴) ’’اچھے طریقے سے‘‘ جب ولی نے قصاص معاف کیا ہے تو وہ دیت لینے میں بھی احسان کرے کہ قسطوں میں میں لے۔ یکمشت ادائیگی کی ضد نہ کرے الا یہ کہ قاتل آسانی سے یکمشت ادا کر سکتا ہو۔ اسی طرح قاتل کو بھی احسان کی قدر کرتے ہوئے تند ہی سے ادائیگی کرنی چاہیے اور مقتول کے اولیاء کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ (۱) ’’برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔‘‘ یعنی قصاص لینا جائز ہے۔ مشروع ہے، واجب اور ضروری نہیں بلکہ عام حالات میں معافی بہتر ہے۔ (۲) ’’آزاد کے بدلے وہی آزاد (قاتل)‘‘ دور جاہلیت میں بعض قوی قبائل اپنے غلام کو دوسروں کے آزاد اور اپنی عورت کو دوسروں کے مردوں کے برابر سمجھتے تھے۔ اپنے ایک آزاد کے بدلے میں وہ دوسروں کے دس، دس آزاد مار دیتے تھے۔ شریعت نے فرمایا: قاتل ہی قتل کیا جائے گا آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا مرد، ایک ہو یا زائد۔ بعض حضرات نے معنی کیے ہیں: ’’آزاد کے بدلے آزاد قتل کیا جائے گا، غلام کے بدلے غلام‘‘ حالانکہ یہ معنی غلط ہیں۔ مقتول کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے گا نہ کہ کوئی آزاد ی یا غلام۔ (۳) ’’کچھ معافی‘‘ یعنی قصاص معاف ہو جائے، خواہ سب اولیاء معاف کر دیں یا ایک ولی معاف کر دے۔ ایسی صورت میں قصاص نہیں، دیت ہوگی۔ (۴) ’’اچھے طریقے سے‘‘ جب ولی نے قصاص معاف کیا ہے تو وہ دیت لینے میں بھی احسان کرے کہ قسطوں میں میں لے۔ یکمشت ادائیگی کی ضد نہ کرے الا یہ کہ قاتل آسانی سے یکمشت ادا کر سکتا ہو۔ اسی طرح قاتل کو بھی احسان کی قدر کرتے ہوئے تند ہی سے ادائیگی کرنی چاہیے اور مقتول کے اولیاء کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔