سنن النسائي - حدیث 4776

كِتَابُ الْقَسَامَةِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى عَطَاءٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ صحيح أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى: أَنَّ أَبَاهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَاسْتَأْجَرَ أَجِيرًا، فَقَاتَلَ رَجُلًا، فَعَضَّ الرَّجُلُ ذِرَاعَهُ، فَلَمَّا أَوْجَعَهُ نَتَرَهَا فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ، فَيَعَضُّ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ» فَأَبْطَلَ ثَنِيَّتَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4776

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل اس روایت میں (راویوں کا) عطاء پر اختلاف حضرت صفوان بن یعلیٰ سے روایت ہے کہ میرے والد غزوہ تبوک میں رسول اللہﷺ کے ساتھ گئے۔ ساتھ ایک نوکر بھی لے گئے۔ وہ کسی آدمی سے لڑ پڑا۔ اس آدمی نے اس کی کلائی پر کاٹ لیا۔ جب اس کو تکلیف ہوئی تو اس نے زور سے ہاتھ کھینچا۔ ساتھ ہی دانت بھی اکھڑ آیا۔ یہ مقدمہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف بڑھتا ہے اور اس کو اس طرح کاٹ کھاتا ہے جیسے اونٹ چباتا ہے۔‘‘ آپ نے اس کے دانت کا کوئی معاوضہ نہ دلوایا۔
تشریح : (۱) مذکورہ روایت مختلف سندوں سے مروی ہے۔ بعض طرق میں لڑنے والے دونوں افراد کے نام مخفی رکھے گئے ہیں۔ بعض میں دانت کاٹنے والے کی صراحت ہے اور بعض میں جسے کاٹا گیا اس کا ذکر ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے یہ دو واقعات ہوں، ایک لڑائی کرنے والے حضرت یعلی اور دوسرا کوئی شخص ہو اور دوسرے میں حضرت یعلی کا نوکر اور دوسرا کوئی شخص ہو۔ لیکن راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے اور تمام روایات میں تطبیق کی صورت یوں ہے کہ یہ لڑائی حضرت یعلی اور ان کے نوکر کے درمیان ہوئی۔ دانت کاٹنے والے حضرت یعلی خود تھے اور دانت بھی انھی کا ٹوٹا تھا۔ شاید اسی وجہ سے انھوں نے اپنا نام مخفی رکھا۔ حضرت عمران بن حصین نے حضرت یعلی کے نام کی صراحت کی ہے۔ (حدیث: ۴۷۶۴) اور جنھیں کاٹا گیا وہ ان کے نوکر تھے۔ اس طرح رجل من المسلمین، رجلا من بنی تمیم، عض الاخر اور عض الرجل سے مراد حضرت یعلی ہوں گے۔ (۲) بعض روایات میں یعلی بن امیہ ہے اور بعض میں یعلی ابن منیہ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ امیہ حضرت یعلی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے باپ کا نام ہے اور منیہ ماں کا اس لیے کبھی ان کی نسبت باپ کی طرف کی گئی اور کبھی ماں کی طرف، لہٰذا اس میں کوئی اشکال نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري شرح صحیح البخاری: ۱۲/ ۲۷۴، ۲۷۵) (۱) مذکورہ روایت مختلف سندوں سے مروی ہے۔ بعض طرق میں لڑنے والے دونوں افراد کے نام مخفی رکھے گئے ہیں۔ بعض میں دانت کاٹنے والے کی صراحت ہے اور بعض میں جسے کاٹا گیا اس کا ذکر ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے یہ دو واقعات ہوں، ایک لڑائی کرنے والے حضرت یعلی اور دوسرا کوئی شخص ہو اور دوسرے میں حضرت یعلی کا نوکر اور دوسرا کوئی شخص ہو۔ لیکن راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے اور تمام روایات میں تطبیق کی صورت یوں ہے کہ یہ لڑائی حضرت یعلی اور ان کے نوکر کے درمیان ہوئی۔ دانت کاٹنے والے حضرت یعلی خود تھے اور دانت بھی انھی کا ٹوٹا تھا۔ شاید اسی وجہ سے انھوں نے اپنا نام مخفی رکھا۔ حضرت عمران بن حصین نے حضرت یعلی کے نام کی صراحت کی ہے۔ (حدیث: ۴۷۶۴) اور جنھیں کاٹا گیا وہ ان کے نوکر تھے۔ اس طرح رجل من المسلمین، رجلا من بنی تمیم، عض الاخر اور عض الرجل سے مراد حضرت یعلی ہوں گے۔ (۲) بعض روایات میں یعلی بن امیہ ہے اور بعض میں یعلی ابن منیہ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ امیہ حضرت یعلی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے باپ کا نام ہے اور منیہ ماں کا اس لیے کبھی ان کی نسبت باپ کی طرف کی گئی اور کبھی ماں کی طرف، لہٰذا اس میں کوئی اشکال نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري شرح صحیح البخاری: ۱۲/ ۲۷۴، ۲۷۵)