سنن النسائي - حدیث 4748

كِتَابُ الْقَسَامَةِ سُقُوطُ الْقَوَدِ مِنَ الْمُسْلِمِ لِلْكَافِرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ يَقُولُ: سَأَلْنَا عَلِيًّا فَقُلْنَا: هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ سِوَى الْقُرْآنِ؟ فَقَالَ: «لَا، وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، إِلَّا أَنْ يُعْطِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدًا فَهْمًا فِي كِتَابِهِ أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ» قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: «فِيهَا الْعَقْلُ، وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ، وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4748

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل مسلمان سے کافر کا قصاص نہ لینے کا بیان حضرت ابوجحیفہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا: کیا آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کی جانب سے قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہے؟ انھوں نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑ کر انگوری نکالی اور روح کو پیدا فرمایا! نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی کو اپنی کتاب کی سمجھ عطا فرمائے۔ (اس میں فرق ہو سکتا ہے) یا پھر اس تحریر میں کچھ باتیں ہیں۔ میں نے کہا: اس تحریر میں کیا لکھا ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس میں دیت کے مسائل ہیں۔ قیدی کو چھڑانے کی فضیلت کا بیان ہے اور یہ کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
تشریح : (۱) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائد ومسائل حدیث: ۴۷۳۸۔ (۲) ’’اس تحریر میں‘‘ اور یہ باتیں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ یا اہل بیت سے خاص نہیں تھیں بلکہ عام لوگ بھی جانتے تھے۔ (۳)’’قیدی کو چھڑانا‘‘ مراد وہ قیدی ہے جو کافروں کی قید میں پھنس جائے یا حکومت کی قید میں بے گناہ ہو۔ گناہ گار قیدی جو کسی جرم میں ماخوذ ہو کر قید میں ہو، اسے چھڑانا جائز نہیں، البتہ اس سے طعام ولباس یا اس کے اہل خانہ کے طعام وغیرہ کے سلسلے میں تعاون ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات بعض لوگ قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں قید ہو جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے قرض ادا کر کے ان کو چھڑانا بھی فضیلت کی بات ہے۔ (۱) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائد ومسائل حدیث: ۴۷۳۸۔ (۲) ’’اس تحریر میں‘‘ اور یہ باتیں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ یا اہل بیت سے خاص نہیں تھیں بلکہ عام لوگ بھی جانتے تھے۔ (۳)’’قیدی کو چھڑانا‘‘ مراد وہ قیدی ہے جو کافروں کی قید میں پھنس جائے یا حکومت کی قید میں بے گناہ ہو۔ گناہ گار قیدی جو کسی جرم میں ماخوذ ہو کر قید میں ہو، اسے چھڑانا جائز نہیں، البتہ اس سے طعام ولباس یا اس کے اہل خانہ کے طعام وغیرہ کے سلسلے میں تعاون ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات بعض لوگ قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں قید ہو جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے قرض ادا کر کے ان کو چھڑانا بھی فضیلت کی بات ہے۔