سنن النسائي - حدیث 4747

كِتَابُ الْقَسَامَةِ سُقُوطُ الْقَوَدِ مِنَ الْمُسْلِمِ لِلْكَافِرِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَال: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: لَا يَحِلُّ قَتْلُ مُسْلِمٍ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ: زَانٍ مُحْصَنٌ فَيُرْجَمُ، وَرَجُلٌ يَقْتُلُ مُسْلِمًا مُتَعَمِّدًا، وَرَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ فَيُحَارِبُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولَهُ، فَيُقْتَلُ أَوْ يُصَلَّبُ، أَوْ يُنْفَى مِنَ الْأَرْضِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4747

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل مسلمان سے کافر کا قصاص نہ لینے کا بیان ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ ان تین جرائم میں سے کوی جرم کرے: شادی شدہ ہو کر زنا کرے تو اسے رجم کیا جائے گا۔ کسی مسلمان شخص کو جان بوجھ کر قتل کر دے۔ یا اسلام سے خارج ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ شروع کر دے تو اسے قتل کیا جائے گا یا سولی پر لٹکایا جائے گا یا اپنے علاقے سے جلا وطن کر دیا جائے گا۔‘‘
تشریح : مصنف رحمہ اللہ کا استدلال ظاہر الفاظ سے ہے کہ ان تین جرائم کے علاوہ کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ اور ان میں دوسرا جرم کسی مسلامن کو قتل کرنے کا ہے نہ کہ کافر کو۔ اس استدلال کی تائید آئندہ احادیث سے بھی ہو رہی ہے جن میں صراحتاً فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ باقی رہا النفس بالنفس تو یہ عام نہیں کیونکہ حربی کافر کے بدلے کوئی شخص بھی مسلمان کو قتل کرنے کا قائل نہیں۔ جس طرح حربی کا فر مستثنیٰ ہے، اسی طرح ان احادیث کی بنا پر ذمی کافر بھی مستثنیٰ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد و مسائل حدیث: ۴۷۳۸) مصنف رحمہ اللہ کا استدلال ظاہر الفاظ سے ہے کہ ان تین جرائم کے علاوہ کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ اور ان میں دوسرا جرم کسی مسلامن کو قتل کرنے کا ہے نہ کہ کافر کو۔ اس استدلال کی تائید آئندہ احادیث سے بھی ہو رہی ہے جن میں صراحتاً فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ باقی رہا النفس بالنفس تو یہ عام نہیں کیونکہ حربی کافر کے بدلے کوئی شخص بھی مسلمان کو قتل کرنے کا قائل نہیں۔ جس طرح حربی کا فر مستثنیٰ ہے، اسی طرح ان احادیث کی بنا پر ذمی کافر بھی مستثنیٰ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد و مسائل حدیث: ۴۷۳۸)