سنن النسائي - حدیث 4735

كِتَابُ الْقَسَامَةِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ فِيهِ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَقَ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَتَلَ أَخِي، قَالَ: «اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ كَمَا قَتَلَ أَخَاكَ». فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: اتَّقِ اللَّهَ، وَاعْفُ عَنِّي، فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِأَجْرِكَ، وَخَيْرٌ لَكَ وَلِأَخِيكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: فَخَلَّى عَنْهُ. قَالَ: فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَ لَهُ، قَالَ: فَأَعْنَفَهُ أَمَا إِنَّهُ كَانَ خَيْرًا مِمَّا هُوَ صَانِعٌ بِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ: يَا رَبِّ، سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4735

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اس آدمی نے میرے بھائی کو قتل کر ڈالا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’جا اسے قتل کر دے، جیسے اس نے تیرے بھائی کو قتل کیا ہے۔‘‘ وہ آدمی (قاتل) کہنے لگا: ’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مجھے معاف کر دو۔ اس سے تجھے بہت ثواب ملے گا۔ اور یہ (معافی) تیرے اور تیرے بھائی کے لیے قیامت کے دن بہت اچھی ثابت ہوگی۔ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ نبی کریمﷺ کو بتایا گیا۔ آپ نے قاتل سے پوچھا تو اس نے مقتول کے وارث سے جو کہا تھا آپ کو اس کی خبر دی۔ تو آپ نے اسے ڈانٹا (اور فرمایا:) ’’تیرا قتل ہو جانا اس سلوک سے بہتر تھا جو مقتول قیامت کے دن تجھ سے کرے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب اس سے پوچھیے کہ اس نے کس بنا پر مجھے قتل کیا تھا؟‘‘
تشریح : (۱) ’’تیرا قتل ہو جانا بہتر تھا‘‘ گویا معافی مقتول اور اس کے ولی کے لیے تو بہتر اور افضل ہے مگر قاتل کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ مقتول اور اس کا ولی تو معافی کی وجہ سے جنت میں چلے جائیں گے مگر قاتل کو حساب دینا ہوگا اور عذاب سہنا ہوگا، بخلاف اس کے کہ اگر معاف نہ کیا جاتا اور قاتل کو قتل کر دیا جاتا تو قاتل کا گناہ تو معاف ہو جاتا، البتہ مقتول اور اس کے ولی کی معافی کی کوئی ضمانت نہ ہوتی۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت سے سزا ہونے کے بعد بھی قاتل، مقتول کے وارث سے معافی کی درخواست کر سکتا ہے اور وہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے کیونکہ یہ خالصتاً اسی کا حق ہے۔ اور یہ صرف قتل کے مسئلے میں ہے۔ چوری وغیرہ کے مسئلے میں عدالت میں کیس آنے سے پہلے تو معاف کر سکتا ہے بعد میں نہیں۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ واللہ اعلم (۱) ’’تیرا قتل ہو جانا بہتر تھا‘‘ گویا معافی مقتول اور اس کے ولی کے لیے تو بہتر اور افضل ہے مگر قاتل کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ مقتول اور اس کا ولی تو معافی کی وجہ سے جنت میں چلے جائیں گے مگر قاتل کو حساب دینا ہوگا اور عذاب سہنا ہوگا، بخلاف اس کے کہ اگر معاف نہ کیا جاتا اور قاتل کو قتل کر دیا جاتا تو قاتل کا گناہ تو معاف ہو جاتا، البتہ مقتول اور اس کے ولی کی معافی کی کوئی ضمانت نہ ہوتی۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت سے سزا ہونے کے بعد بھی قاتل، مقتول کے وارث سے معافی کی درخواست کر سکتا ہے اور وہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے کیونکہ یہ خالصتاً اسی کا حق ہے۔ اور یہ صرف قتل کے مسئلے میں ہے۔ چوری وغیرہ کے مسئلے میں عدالت میں کیس آنے سے پہلے تو معاف کر سکتا ہے بعد میں نہیں۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ واللہ اعلم