سنن النسائي - حدیث 4733

كِتَابُ الْقَسَامَةِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ قَتَلَ رَجُلًا، فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ يَقْتُلُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجُلَسَائِهِ: «الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ» قَالَ: فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ، فَأَخْبَرَهُ، فَلَمَّا أَخْبَرَهُ تَرَكَهُ. قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ حِينَ تَرَكَهُ يَذْهَبُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَبِيبٍ فَقَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَشْوَعَ قَالَ: وَذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الرَّجُلَ بِالْعَفْوِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4733

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان حضرت وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا۔ آپ نے اسے مقتول کے ولی کے سپرد فرمایا دیا کہ (چاہے تو) قتل کر دے۔ پھر نبی کریمﷺ نے اپنے ہم نشینوں سے کہا: ’’قاتل مقتول دونوں آگ میں جائیں گے۔‘‘ ایک آدمی اس کے پیچھے گیا اور اسے آپ کے فرمان کی خبر دی۔ جب اس نے اس کو یہ بتایا تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ جب اس نے چھوڑا تو میں نے دیکھا کہ وہ رسی گھسیٹتے ہوئے بھاگا جا رہا تھا۔ [فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِحَبِیْبٍ فَقَالَ… الخ] میں نے یہ روایت حبیب سے بیان کی تو اس نے کہا: مجھ سے سعید بن اشوع نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے اس آدمی کو معاف کرنے کا حکم دیا۔
تشریح : (۱) [فَذَکَرْتُ…] کے قائل اسماعیل بن سالم ہیں۔ صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے۔ اسی طرح حبیب سے مراد حبیب بن ابی ثابت ہیں۔ اس کی تصریح اور وضاحت بھی صحیح مسلم میں موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب صحۃ الاقرار بالقتل وتمکین ولی القتیل من القصاص… الخ، حدیث: ۱۶۸۰) (۲) ’’دونوں آگ میں‘ یہ مطلب نہیں کہ اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو دونوں آگ میں جائیں گے۔ یہ معنی مسلمات کے خلاف ہیں کیونکہ قتل کیے جانے کی صورت میں قاتل کا گناہ معاف ہو جائے گا کیونکہ قصاص لینے والا تو اپنا حق وصول کر لے گا۔ وہ آگ میں کیوں؟ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر قاتل اور مقتول دونوں ایک دوسرے کے قتل کے در پے رہے ہوں تو وہ دونوں آگ میں جائیں گے۔ ضروری نہیں کہ صرف قاتل ہی قصور وار ہو، لہٰذا معاف کر دینا چاہیے۔ اس قسم کے الفاظ سے مقصود معافی کے جذبات کو ابھارنا تھا اور وہ مقصود حاصل ہوگیا۔ واللہ اعلم (۱) [فَذَکَرْتُ…] کے قائل اسماعیل بن سالم ہیں۔ صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے۔ اسی طرح حبیب سے مراد حبیب بن ابی ثابت ہیں۔ اس کی تصریح اور وضاحت بھی صحیح مسلم میں موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب صحۃ الاقرار بالقتل وتمکین ولی القتیل من القصاص… الخ، حدیث: ۱۶۸۰) (۲) ’’دونوں آگ میں‘ یہ مطلب نہیں کہ اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو دونوں آگ میں جائیں گے۔ یہ معنی مسلمات کے خلاف ہیں کیونکہ قتل کیے جانے کی صورت میں قاتل کا گناہ معاف ہو جائے گا کیونکہ قصاص لینے والا تو اپنا حق وصول کر لے گا۔ وہ آگ میں کیوں؟ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر قاتل اور مقتول دونوں ایک دوسرے کے قتل کے در پے رہے ہوں تو وہ دونوں آگ میں جائیں گے۔ ضروری نہیں کہ صرف قاتل ہی قصور وار ہو، لہٰذا معاف کر دینا چاہیے۔ اس قسم کے الفاظ سے مقصود معافی کے جذبات کو ابھارنا تھا اور وہ مقصود حاصل ہوگیا۔ واللہ اعلم