سنن النسائي - حدیث 4731

كِتَابُ الْقَسَامَةِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ سِمَاكٍ، ذَكَرَ أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ، أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ بِنِسْعَةٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَتَلَ هَذَا أَخِي. فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَقَتَلْتَهُ؟» قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ لَمْ يَعْتَرِفْ، أَقَمْتُ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ قَتَلْتُهُ. قَالَ: «كَيْفَ قَتَلْتَهُ؟» قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَهُوَ نَحْتَطِبُ مِنْ شَجَرَةٍ، فَسَبَّنِي، فَأَغْضَبَنِي، فَضَرَبْتُ بِالْفَأْسِ عَلَى قَرْنِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ لَكَ مِنْ مَالٍ تُؤَدِّيهِ عَنْ نَفْسِكَ؟» قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي إِلَّا فَأْسِي وَكِسَائِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتُرَى قَوْمَكَ يَشْتَرُونَكَ؟» قَالَ: أَنَا أَهْوَنُ عَلَى قَوْمِي مِنْ ذَاكَ، فَرَمَى بِالنِّسْعَةِ إِلَى الرَّجُلِ. فَقَالَ: «دُونَكَ صَاحِبَكَ». فَلَمَّا وَلَّى قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ»، فَأَدْرَكُوا الرَّجُلَ فَقَالُوا: وَيْلَكَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ» فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حُدِّثْتُ أَنَّكَ قُلْتَ إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ، وَهَلْ أَخَذْتُهُ إِلَّا بِأَمْرِكَ. فَقَالَ: «مَا تُرِيدُ أَنْ يَبُوءَ بِإِثْمِكَ، وَإِثْمِ صَاحِبِكَ» قَالَ: بَلَى. قَالَ: «فَإِنْ ذَاكَ». قَالَ: ذَلِكَ كَذَلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4731

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان حضرت وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی ایک دوسرے آدمی کو تندی (چمڑے کی رسی) کے ساتھ کھینچتا ہوا آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس نے میرے بھائی کو قتل کر دیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس (دوسرے آدمی) سے پوچھا: ’’کیا تو نے اسے قتل کیا ہے؟‘‘ پہلا آدمی کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اگر یہ نہ مانے تو میں گواہ پیش کروں گا۔ دوسرے آدمی نے کہا: ہاں، میں نے اسے قتل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیسے قتل کیا؟‘‘ اس نے کہا: میں اور وہ ایک درخت سے ایندھن کے لیے لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔ اس نے مجھے گالی دے کر غصہ دلا دیا تو میں نے کلہاڑا اس کے سر کی چوٹی پر دے مارا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کیا تیرے پاساتنا مال ہے جو تو اپنی جان بچانے کے لیے ادا کرے؟‘‘ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس تو میرے کلہاڑے اور میری چادر کے سوا کچھ نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کیا خیال ہے تیری قوم تجھے خرید لے گی؟ (تیری دیت دے کر تجھے بچا لے گی؟)‘‘ اس نے کہا: میں اپنی قوم کے نزدیک اس سے کم مرتبہ ہوں۔ آپ نے اس کی رسی پہلے آدمی کی طرف پھینک دی اور فرمایا: ’’لو اپنے قاتل کو سنبھالو۔‘‘ جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اس جیسا ہی ہوگا۔‘‘ لوگ جا کر اس آدمی کو ملے اور کہا: تجھ پر افسوس! رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ’’اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو وہ اس جیسا ہی ہوگا۔‘‘ وہ آدمی واپس رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے: ’’اگر اس (میں) نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اس جیسا ہی ہوگا۔‘‘ حالانکہ میں نے تو اسے آپ کے فرمان سے پکڑا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو نہیں چاہتا کہ یہ شخص تیرا اور تیرے مقتول کا گناہ سمیٹ لے۔ (تمھارے گناہوں کی معافی کا سبب بن جائے؟)‘‘ اس نے کہا: کیوں نہیں، پھر کہا: اگر یہ بات ہے تو میں معاف کر دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ اسی طرح ہے جس طرح میں نے کہا، یعنی وہ تیرے اور تیرے مقتول کے گناہ اٹھائے گا۔‘‘
تشریح : حدیث ۴۷۳۰ میں ہے کہ وہ کنواں کھود رہے تھے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ وہ لکڑیاں کاٹ رہے تھے جب اس نے قتل کیا۔ اس میں تطبیق یوں ہو سکتی ہے کہ ان کا اصل کام تو کنواں کھودنا ہو اور اس دوران میں انھیں لکڑیاں حاصل کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہو اور لکڑیاں اکٹھی کرتے ہوئے ان کے درمیان جھگڑا ہوگیا ہو اور اس نے کنواں کھودنے والی کدال کے ساتھ اسے قتل کر دیا ہو۔ جب مقتول کے بھائی نے بتایا تو اس نے ان کے اصل کام کا حوالہ دیا اور جب قاتل نے خود بتایا تو جائے وقوعہ کی خبر دی۔ واللہ اعلم حدیث ۴۷۳۰ میں ہے کہ وہ کنواں کھود رہے تھے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ وہ لکڑیاں کاٹ رہے تھے جب اس نے قتل کیا۔ اس میں تطبیق یوں ہو سکتی ہے کہ ان کا اصل کام تو کنواں کھودنا ہو اور اس دوران میں انھیں لکڑیاں حاصل کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہو اور لکڑیاں اکٹھی کرتے ہوئے ان کے درمیان جھگڑا ہوگیا ہو اور اس نے کنواں کھودنے والی کدال کے ساتھ اسے قتل کر دیا ہو۔ جب مقتول کے بھائی نے بتایا تو اس نے ان کے اصل کام کا حوالہ دیا اور جب قاتل نے خود بتایا تو جائے وقوعہ کی خبر دی۔ واللہ اعلم