سنن النسائي - حدیث 4730

كِتَابُ الْقَسَامَةِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ فِيهِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَهُوَ الْحَوْضِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ رَجُلٌ فِي عُنُقِهِ نِسْعَةٌ. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا، فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ فَضَرَبَ بِهِ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اعْفُ عَنْهُ» فَأَبَى وَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا، فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ فَضَرَبَ بِهِ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ: «اعْفُ عَنْهُ» فَأَبَى ثُمَّ قَامَ. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا، فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ - أُرَاهُ قَالَ: - فَضَرَبَ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ. فَقَالَ: «اعْفُ عَنْهُ» فَأَبَى، قَالَ: «اذْهَبْ إِنْ قَتَلْتَهُ كُنْتَ مِثْلَهُ» فَخَرَجَ بِهِ حَتَّى جَاوَزَ، فَنَادَيْنَاهُ، أَمَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَجَعَ. فَقَالَ: «إِنْ قَتَلْتُهُ كُنْتُ مِثْلَهُ» قَالَ: نَعَمْ أَعْفُ، فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4730

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان حضرت وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا جس کی گردن میں رسی تھی (مطلب یہ کہ ایک شخص دوسرے آدمی کو گلے میں تندی ڈال کر لایا)۔ اور (وہی لانے والا شخص) کہنے لگا: یہ اور میر ابھائی ایک کنواں کھود رہے تھے کہ اس نے کدال اٹھائی اور میرے بھائی کے سر پر دے ماری اور اسے مار دیا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اسے معاف کر دے۔‘‘ اس نے انکار کر دیا۔ اور پھر کہنے لگا: اے اللہ کے نبی! یہ اور میرا بھائی ایک کنویں میں کھدائی کر رہے تھے تو اس نے کدال اٹھا کر اپنے ساتھی کے سر پر دے ماری اور اسے قتل کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے معاف کر دے۔‘‘ اس نے پھر انکار کیا۔ کچھ دیر بعد پھر اٹھا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی دونوں ایک کنویں کی کھدائی کر رہے تھے۔ اس نے کدال اٹھائی اور اپنے ساتھی کے سر پر مار دی اور اس کی جان نکال دی۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے معاف کر دے۔‘‘ اس نے پھر انکار کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر جا (لیکن یاد رکھ کہ) اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تو بھی اس جیسا ہی ہوگا۔‘‘ وہ اسے لے کر چلا گیا حتی کہ کافی دور نکل گیا۔ تو ہم نے اسے آواز دی کہ تو رسول اللہﷺ کی بات نہیں سنتا؟ وہ واپس آیا اور کہنے لگا: اگر میں نے اسے قتل کر دیا تو اس جیسا ہو جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اسے معاف کر دے۔‘‘ پھر (اس نے قاتل کو چھوڑ دیا تو) قاتل اپنی تندی سمیت نکل بھاگا حتیٰ کہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔
تشریح : (۱)’’تو اس جیسا ہی ہوگا‘‘ ظاہر مفہوم تو یہ ہے کہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تو بھی ناجائز قاتل ہوگا لیکن یہ مفہوم یہاں مراد نہیں کیونکہ قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جرم نہیں۔ باقی رہا قاتل کا یہ کہنا کہ میری نیت قتل کرنے کی نہیں تھی۔ اس سے قاتل کو معاف کرنا لازم نہیں آتا کیونکہ نیت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ظاہراً صورت قتل کی ہی تھی۔ آپ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ تجھے اس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ اس نے بھی غصے میں قتل کیا، تو نے بھی۔ اگرچہ اس نے ناجائز قتل کیا اور تو جائز کرے گا مگر فضیلت تبھی حاصل ہوگی جب تو معاف کر دے۔ دنیا میں بھی تعریف ہوگی، آخرت میں بھی اجر عظیم حاصل ہوگا۔ آپ نے اس جیسا ذو معنی جملہ بول کر اس کے معافی کے جذبات کو ابھارا اور اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ﷺ (۲) معلوم ہوا قصاص کی بجائے معافی بہتر ہے خصوصاً جب کہ قاتل یہ عذر بھی پیش کرتا ہو کہ میری نیت قتل کی نہیں تھی، اگرچہ ایسی صورت میں معافی ضروری نہیں تبھی تو آپ نے قاتل مقتول کے ولی کے سپرد کر دیا تھا کہ وہ اسے قتل کر سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد ومسائل حدیث: ۴۷۲۶) (۱)’’تو اس جیسا ہی ہوگا‘‘ ظاہر مفہوم تو یہ ہے کہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تو بھی ناجائز قاتل ہوگا لیکن یہ مفہوم یہاں مراد نہیں کیونکہ قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جرم نہیں۔ باقی رہا قاتل کا یہ کہنا کہ میری نیت قتل کرنے کی نہیں تھی۔ اس سے قاتل کو معاف کرنا لازم نہیں آتا کیونکہ نیت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ظاہراً صورت قتل کی ہی تھی۔ آپ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ تجھے اس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ اس نے بھی غصے میں قتل کیا، تو نے بھی۔ اگرچہ اس نے ناجائز قتل کیا اور تو جائز کرے گا مگر فضیلت تبھی حاصل ہوگی جب تو معاف کر دے۔ دنیا میں بھی تعریف ہوگی، آخرت میں بھی اجر عظیم حاصل ہوگا۔ آپ نے اس جیسا ذو معنی جملہ بول کر اس کے معافی کے جذبات کو ابھارا اور اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ﷺ (۲) معلوم ہوا قصاص کی بجائے معافی بہتر ہے خصوصاً جب کہ قاتل یہ عذر بھی پیش کرتا ہو کہ میری نیت قتل کی نہیں تھی، اگرچہ ایسی صورت میں معافی ضروری نہیں تبھی تو آپ نے قاتل مقتول کے ولی کے سپرد کر دیا تھا کہ وہ اسے قتل کر سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد ومسائل حدیث: ۴۷۲۶)