سنن النسائي - حدیث 4727

كِتَابُ الْقَسَامَةِ بَابُ الْقَوَدِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَقُ، عَنْ عَوْفٍ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جِيءَ بِالْقَاتِلِ الَّذِي قَتَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَ بِهِ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَعْفُو؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «أَتَقْتُلُ؟» قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: «اذْهَبْ» فَلَمَّا ذَهَبَ دَعَاهُ، قَالَ: «أَتَعْفُو؟» قَالَ: لَا. قَالَ: «أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟» قَالَ: لَا. قَالَ: «أَتَقْتُلُ؟» قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: «اذْهَبْ» فَلَمَّا ذَهَبَ قَالَ: «أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ، فَإِنَّهُ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ» فَعَفَا عَنْهُ، فَأَرْسَلَهُ قَالَ: فَرَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4727

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل قصاص کا بیان حضرت وائل حضرمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ قاتل کو رسول اللہﷺ کے پاس پیش کیا گیا۔ اسے مقتول کا وارث لے کر آیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے اسے فرمایا: ’’کیا تو اسے معاف کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے قتل کرے گا؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’جاؤ۔‘‘ جب وہ چل پڑا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’’کیا تو معاف کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو دیت لے گا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر تو قتل کرے گا؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ فرمایا: ’’جاؤ۔‘‘ جب وہ چل پڑا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر تو اسے معاف کر دے تو وہ تیرے اور تیرے مقتول کے گناہ کا ذمہ دار ہوگا۔‘‘ اس نے اسے معاف کر دیا اور چھوڑ دیا۔ میں نے قاتل کو دیکھا، وہ اپنی تندی (یا رسی) کو گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا۔
تشریح : (۱) جج اور حاکم کے لیے مشروع اور جائز ہے کہ وہ مقتول کے ورثاء کو، معاف کرنے کی ترغیب دیں، لیکن انھیں بذات خود کسی مجرم اور قاتل کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر حاکم وقت یا فیصلہ کرنے والا جج از خود کسی قاتل کو، جرم ثابت ہونے کے باوجود معاف کرے گا تو یہ صریح ظلم اور عدل وانصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہمارے ہاں جو یہ رائج ہے کہ تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار ’’جناب صدر‘‘ کے پاس ہے، یہ قطعاً غلط اور ناجائز ہے۔ (۲) مجرم کو باندھنا جائز ہے بالخصوص جب اس کے فرار ہونے اور بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔ (۳) ’’تیرے اور مقگتول کے گناہ‘‘ یعنی اس معافی کے بدلے میں تیرے اور مقتول کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور تم دونوں جنتی بن جاؤ گے۔ مقتول اس لیے کہ وہ ظلماً مارا گیا اور مقتول کا ولی اس لیے کہ اس نے قاتل کی جان بخش دی۔ گویا ایک شخص کو زندگی دی۔ اور یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قاتل کو دوگناہ ہوں گے۔ مقتول کو قتل کرنے کا اور تجھے (مقتول کے اولیاء کو) صدمہ اور نقصان پہنچانے کا، لیکن پہلے معنی زیادہ صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم! (۴) مقتول کے ورثاء کو تین باتوں میں سے صرف ایک کا اختیار ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قاتل کو معاف کر دیں، یہ سب سے بہتر، افضل اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اگر معاف نہیں کرتے تو پھر دیت، یعنی خون بہا لے لیں اور اسے چھوڑ دیں۔ یہ بھی بہتر ہے لیکن پہلے سے کم درجے کی نیکی ہے۔ اور تیسری اور آخری صورت قصاص میں قتل کرنا ہے۔ اس سے جس قدر بچ جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر پہلی دونوں باتوں پر وہ آمادہ نہ ہوں تو پھر قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا اور بس۔ (۵) رسول اللہﷺ کا مقتول کے وارث کو بار بار معاف کرنے کی تلقین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ معافی پسندیدہ اور محبوب عمل ہے، نیز رسول اللہﷺ کے بار بار معافی کا شوق دلانے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں معاف کر دینا قصاص لینے سے بہتر ہے۔ اور مقتول کے اولیاء کو معافی کی رغبت دلانی چاہیے۔ (۱) جج اور حاکم کے لیے مشروع اور جائز ہے کہ وہ مقتول کے ورثاء کو، معاف کرنے کی ترغیب دیں، لیکن انھیں بذات خود کسی مجرم اور قاتل کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر حاکم وقت یا فیصلہ کرنے والا جج از خود کسی قاتل کو، جرم ثابت ہونے کے باوجود معاف کرے گا تو یہ صریح ظلم اور عدل وانصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہمارے ہاں جو یہ رائج ہے کہ تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار ’’جناب صدر‘‘ کے پاس ہے، یہ قطعاً غلط اور ناجائز ہے۔ (۲) مجرم کو باندھنا جائز ہے بالخصوص جب اس کے فرار ہونے اور بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔ (۳) ’’تیرے اور مقگتول کے گناہ‘‘ یعنی اس معافی کے بدلے میں تیرے اور مقتول کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور تم دونوں جنتی بن جاؤ گے۔ مقتول اس لیے کہ وہ ظلماً مارا گیا اور مقتول کا ولی اس لیے کہ اس نے قاتل کی جان بخش دی۔ گویا ایک شخص کو زندگی دی۔ اور یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قاتل کو دوگناہ ہوں گے۔ مقتول کو قتل کرنے کا اور تجھے (مقتول کے اولیاء کو) صدمہ اور نقصان پہنچانے کا، لیکن پہلے معنی زیادہ صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم! (۴) مقتول کے ورثاء کو تین باتوں میں سے صرف ایک کا اختیار ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قاتل کو معاف کر دیں، یہ سب سے بہتر، افضل اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اگر معاف نہیں کرتے تو پھر دیت، یعنی خون بہا لے لیں اور اسے چھوڑ دیں۔ یہ بھی بہتر ہے لیکن پہلے سے کم درجے کی نیکی ہے۔ اور تیسری اور آخری صورت قصاص میں قتل کرنا ہے۔ اس سے جس قدر بچ جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر پہلی دونوں باتوں پر وہ آمادہ نہ ہوں تو پھر قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا اور بس۔ (۵) رسول اللہﷺ کا مقتول کے وارث کو بار بار معاف کرنے کی تلقین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ معافی پسندیدہ اور محبوب عمل ہے، نیز رسول اللہﷺ کے بار بار معافی کا شوق دلانے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں معاف کر دینا قصاص لینے سے بہتر ہے۔ اور مقتول کے اولیاء کو معافی کی رغبت دلانی چاہیے۔