سنن النسائي - حدیث 4726

كِتَابُ الْقَسَامَةِ بَابُ الْقَوَدِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، وَاللَّفْظُ لِأَحْمَدَ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ. فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ: «أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا، ثُمَّ قَتَلْتَهُ، دَخَلْتَ النَّارَ فَخَلَّى سَبِيلَهُ» قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ، فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ، فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4726

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل قصاص کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ کے دور میں ایک آدمی قتل ہوگیا۔ قاتل کو پکڑ کر نبی اکرمﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ نے اسے مقتول کے وارث کے سپرد کر دیا۔ قاتل کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا۔ رسول اللہﷺ نے مقتول کے وارث سے فرمایا: ’’اگر یہ سچا ہوا اور تو نے اسے قتل کر دیا تو تو آگ میں جائے گا۔‘‘ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ قاتل چمڑے کی رسی سے بندھا ہوا تھا۔ وہ اسی طرح اپنی رسی کو گھسیٹتا ہوا نکلا تو اس کا نام ہی ذوالنسعہ (تندی یا رسی والا) پڑ گیا۔
تشریح : (۱) مقتول کے وارث کو چاہیے کہ وہ قصاص لینے میں جلدی نہ کرے بلکہ معاف کر دے۔ اگرچہ قصاص لینا جائز ہے، تاہم معاف کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ ممکن ہے قاتل بے گناہ ہو یا اس نے جان بوجھ کر قتل نہ کیا ہو وغیرہ۔ (۲)اس حدیث سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ اگر کسی شخص کو اس کے کسی پیشے یا کسی اور خصوصیت کی وجہ سے کوئی لقب دیا جائے اور وہ اسے برا نہ سمجھے تو اس کا جواز ہے جیسا کہ حدیث میں مذکور شخص کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ذوالنسعہ (رسی یا تندی والا) کہا کرتے تھے، یعنی اس کے گلے وغیرہ میں پڑی رسی کی وجہ سے اس کا لقب ہی ذوالنسعہ پڑ گیا۔ (۳) ’’سپرد کر دیا‘‘ شریعت کی رو سے قصاص کا حق مقتول کے ورثاء کو ہے۔ وہ چاہیں تو قتل کریں، چاہیں معاف کر دیں، اس لیے آپ نے قاتل کو مقتول کے ولی کے سپرد کر دیا۔ یہ ضروری نہیں کہ حکومت خود قتل کرے، تاہم جج کے فیصلے سے پہلے از خود ہی قاتل کو قتل کرنا درست نہیں کیونکہ یہ قانون کو ہاتھ میں لینے والی بات ہے، البتہ جب قاضی قاتل حوالے کرے تو پھر اسے قتل کرنا جائز ہے۔ (۴) ’’آگ میں جائے گا۔‘‘ کیونکہ جان بوجھ کر قتل کرنے والے ہی کو قصاصاً قتل کیا جا سکتا ہے۔ قاتل کے بیان کے مطابق اس سے یہ قتل عمداً سرزد نہیں ہوا تھا، لہٰذا وہ قتل کا مستحق نہیں تھا لیکن آپ کا قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دینا یہ بتانا ہے کہ اس قتل کی ظاہری صورت عمد (جان بوجھ کر قتل کرنے) ہی کی تھی۔ قاتل کی نیت کو تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ گویا ایسی صورت میں بھی مقتول کے ورثاء کو چاہیے کہ وہ قاتل کی جان بخشی کر دیں تاکہ کوئی شخص ناحق قتل نہ ہو۔ اگرچہ قاضی ظاہر حالات کے مطابق ہی فیصلہ کرے گا، تاہم مقتول کے ورثاء یہ رعایت دے سکتے ہیں۔ (۱) مقتول کے وارث کو چاہیے کہ وہ قصاص لینے میں جلدی نہ کرے بلکہ معاف کر دے۔ اگرچہ قصاص لینا جائز ہے، تاہم معاف کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ ممکن ہے قاتل بے گناہ ہو یا اس نے جان بوجھ کر قتل نہ کیا ہو وغیرہ۔ (۲)اس حدیث سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ اگر کسی شخص کو اس کے کسی پیشے یا کسی اور خصوصیت کی وجہ سے کوئی لقب دیا جائے اور وہ اسے برا نہ سمجھے تو اس کا جواز ہے جیسا کہ حدیث میں مذکور شخص کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ذوالنسعہ (رسی یا تندی والا) کہا کرتے تھے، یعنی اس کے گلے وغیرہ میں پڑی رسی کی وجہ سے اس کا لقب ہی ذوالنسعہ پڑ گیا۔ (۳) ’’سپرد کر دیا‘‘ شریعت کی رو سے قصاص کا حق مقتول کے ورثاء کو ہے۔ وہ چاہیں تو قتل کریں، چاہیں معاف کر دیں، اس لیے آپ نے قاتل کو مقتول کے ولی کے سپرد کر دیا۔ یہ ضروری نہیں کہ حکومت خود قتل کرے، تاہم جج کے فیصلے سے پہلے از خود ہی قاتل کو قتل کرنا درست نہیں کیونکہ یہ قانون کو ہاتھ میں لینے والی بات ہے، البتہ جب قاضی قاتل حوالے کرے تو پھر اسے قتل کرنا جائز ہے۔ (۴) ’’آگ میں جائے گا۔‘‘ کیونکہ جان بوجھ کر قتل کرنے والے ہی کو قصاصاً قتل کیا جا سکتا ہے۔ قاتل کے بیان کے مطابق اس سے یہ قتل عمداً سرزد نہیں ہوا تھا، لہٰذا وہ قتل کا مستحق نہیں تھا لیکن آپ کا قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دینا یہ بتانا ہے کہ اس قتل کی ظاہری صورت عمد (جان بوجھ کر قتل کرنے) ہی کی تھی۔ قاتل کی نیت کو تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ گویا ایسی صورت میں بھی مقتول کے ورثاء کو چاہیے کہ وہ قاتل کی جان بخشی کر دیں تاکہ کوئی شخص ناحق قتل نہ ہو۔ اگرچہ قاضی ظاہر حالات کے مطابق ہی فیصلہ کرے گا، تاہم مقتول کے ورثاء یہ رعایت دے سکتے ہیں۔