سنن النسائي - حدیث 4723

كِتَابُ الْقَسَامَةِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ سَهْلٍ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، زَعَمَ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ: سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقُوا فِيهَا فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلًا، فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ: قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا. قَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ، وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا. فَانْطَلَقُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، انْطَلَقْنَا إِلَى خَيْبَرَ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِيلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْكُبْرَ الْكُبْرَ» فَقَالَ لَهُمْ: «تَأْتُونَ بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ؟». قَالُوا: مَا لَنَا بَيِّنَةٌ. قَالَ: «فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ». قَالُوا: لَا نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ، وَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْطُلَ دَمُهُ فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ «خَالَفَهُمْ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4723

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل سہل کی اس حدیث کی روایت میں راویوں کے اختلاف الفاظ کا ذکر حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ میری قوم کے کچھ آدمی خیبر گئے۔ وہاں وہ الگ الگ ہو گئے۔ انھوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو مقتل پایا تو ان لوگوں سے، جن کے پاس اس کی لاش پائی گئی تھی، کہا: تم نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہم نے اسے قتل نہیں کیا اور نہ ہم اس کے قاتل کو جانتے ہیں۔ پھر وہ اللہ کے نبیﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے نبی! ہم خیبر گئے تھے۔ وہاں ہم نے اپنے ایک آدمی کو مقتول پایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بڑے کو بات کرنے دو۔‘‘ آپ نے ان سے فرمایا: ’’تم اپنے مقتول کے قاتل کے بارے میں گواہی گواہ پیش کرو۔‘‘ وہ کہنے لگے: ہمارے پاس تو کوئی گواہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر وہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے (اور بری ہو جائیں گے)۔‘‘ وہ کہنے لگے: ہم تو یہودیوں کی قسم کا اعتبار نہیں کرتے۔ رسول اللہﷺ نے پسند نہ فرمایا کہ اس کا خون بلا معاوضہ رہے، لہٰذا آپ نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیت کے طور پر دے دیے۔ عمرو بن شعیب نے ان (حدیث بیان کرنے والے باقی تمام رواۃ) کی مخالفت کی ہے۔
تشریح : (۱) اس مخالفت کی وضاحت یہ ہے کہ یہ حدیث بیان کرنے والے باقی تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ مقتول عبداللہ بن سہل ہیں جوکہ محیصہ کے چچا زاد بھائی ہیں جبکہ عمرو بن شعیب کہتے ہیں (جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے) کہ مقتول محیصہ کا چھوٹا بیٹا ہے، یعنی عبداللہ بن سہل مقتول نہیں۔ دوسری مخالفت یہ ہے کہ دیگر تمام راویوں کے برعکس انھوں نے یہ روایت اپنے پردادا حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے جبکہ تمام رواۃ نے حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیان کی ہے۔ تیسری مخالفت یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دیت یہودیوں پر تقسیم کر دی تھی ور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نصف دیت، یعنی پچاس اونٹ اپنے ذمے لیے تھے جبکہ تمام راوی کہتے ہیں کہ پوری کی پوری دیت، یعنی سو اونٹ اور اونٹنیاں رسول اللہ نے اپنی طرف سے (بیت المال سے ) ادا فرمائی تھی۔ اس حدیث میں بیان کی گئی تفصیل درست نہیں بلکہ جو تفصیل دیگر راویوں نے بیان کی ہے وہی درست اور صحیح ہے۔ اس روایت میں صحیح روایات اور بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کی گئی ہے، اس لیے یہ روایت شاذ، یعنی ضعیف ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری روایات محفوظ، یعنی صحیح ہیں۔ واللہ اعلم۔ (۲)گواہی کا ذکر صرف سعید بن عبید طائی کی روایت میں ہے۔ دیگر رواۃ نے گواہی کا ذکر نہیں کیا۔ تفصیلی روایات، جو کہ بخاری ومسلم کی ہیں، میں یہی ذکر ہے کہ آپ نے پہلے مدعین سے قسمیں اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے انکار پر مدعی علیہم سے قسموں کا ماطلبہ کیا۔ اس لحاظ سے گواہی کا ذکر سعید بن عبید طائی کا شذوذ معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے [خَالَفَھُمْ سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدِ نِ الطَّائِیُّ] سے امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد اسی طرف اشارہ کرنا ہو۔ (۱) اس مخالفت کی وضاحت یہ ہے کہ یہ حدیث بیان کرنے والے باقی تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ مقتول عبداللہ بن سہل ہیں جوکہ محیصہ کے چچا زاد بھائی ہیں جبکہ عمرو بن شعیب کہتے ہیں (جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے) کہ مقتول محیصہ کا چھوٹا بیٹا ہے، یعنی عبداللہ بن سہل مقتول نہیں۔ دوسری مخالفت یہ ہے کہ دیگر تمام راویوں کے برعکس انھوں نے یہ روایت اپنے پردادا حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے جبکہ تمام رواۃ نے حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیان کی ہے۔ تیسری مخالفت یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دیت یہودیوں پر تقسیم کر دی تھی ور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نصف دیت، یعنی پچاس اونٹ اپنے ذمے لیے تھے جبکہ تمام راوی کہتے ہیں کہ پوری کی پوری دیت، یعنی سو اونٹ اور اونٹنیاں رسول اللہ نے اپنی طرف سے (بیت المال سے ) ادا فرمائی تھی۔ اس حدیث میں بیان کی گئی تفصیل درست نہیں بلکہ جو تفصیل دیگر راویوں نے بیان کی ہے وہی درست اور صحیح ہے۔ اس روایت میں صحیح روایات اور بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کی گئی ہے، اس لیے یہ روایت شاذ، یعنی ضعیف ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری روایات محفوظ، یعنی صحیح ہیں۔ واللہ اعلم۔ (۲)گواہی کا ذکر صرف سعید بن عبید طائی کی روایت میں ہے۔ دیگر رواۃ نے گواہی کا ذکر نہیں کیا۔ تفصیلی روایات، جو کہ بخاری ومسلم کی ہیں، میں یہی ذکر ہے کہ آپ نے پہلے مدعین سے قسمیں اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے انکار پر مدعی علیہم سے قسموں کا ماطلبہ کیا۔ اس لحاظ سے گواہی کا ذکر سعید بن عبید طائی کا شذوذ معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے [خَالَفَھُمْ سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدِ نِ الطَّائِیُّ] سے امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد اسی طرف اشارہ کرنا ہو۔