سنن النسائي - حدیث 4715

كِتَابُ الْقَسَامَةِ تَبْدِئَةُ أَهْلِ الدَّمِ فِي الْقَسَامَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ وَرِجَالٌ كُبَرَاءُ مِنْ قَوْمِهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ فَأَخْبَرَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ، فَأَتَى يَهُودَ. وَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ. فَأَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ، فَذَكَرَ لَهُمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُحَيِّصَةَ: «كَبِّرْ كَبِّرْ» يُرِيدُ السِّنَّ فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ»، فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبُوا إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ وَمُحَيِّصَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: «أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ؟» قَالُوا: لَا. قَالَ: «فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ» قَالُوا: لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4715

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل قسامت میں پہلے مقتول کے ورثاء سے قسمیں لینے کا بیان حضرت ابو لیلیٰ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ مجھے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور میری قوم کے بزرگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہ فاقوں کے مارے ہوئے خیبر کو گئے۔ محیصہ کام سے واپس آئے تو انھیں بتایا گیا کہ عبداللہ بن سہل کو قتل کر کے کنویں یا چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ وہ یہودیوں کے پاس گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم نے اسے قتل کیا ہے۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ وہ مدینہ منورہ اپنی قوم کے پاس آئے تو سارا واقعہ ان سے بیان کیا۔ پھر وہ خود، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہﷺ کے پاس آئے۔ محیصہ بات کرنے لگے کیونکہ خیبر میں وہی تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بڑے کو پہلے بات کرنے دو۔‘‘ آپ کا مقصد تھا جو عمر میں بڑا ہے۔ حویصہ نے پہلے بات کی۔ پھر محیصہ نے بھی بات کی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یا تو وہ تمھارے مقتول کی دیت دیں گے ورنہ ان سے اعلان جنگ کر دیا جائے گا۔‘‘ رسول اللہﷺ نے اس کی بابت ان (یہودیوں) کو خط لکھا۔ انھوں نے جواب میں لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ تب رسول اللہﷺ نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمن سے فرمایا: ’’تم (پچاس) قسمیں کھا کر اپنے مقتول کے خون کے حق دار بنتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: آپ نے فرمایا: ’’پھر یہودی تمھارے سامنے قسمیں اٹھائیں گے۔‘‘ انھوں نے کہا: وہ تو مسلمان نہیں ہیں۔ تو رسول اللہﷺ نے اپنی طرف سے مقتول کی دیت ادا فرما دی اور ان کے پاس سو اونٹنیاں بھیج دیں حتیٰ کہ وہ ان کے گھر میں داخل کی گئیں۔ حضرت سہل نے کہا: ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔