سنن النسائي - حدیث 4710

كِتَابُ الْقَسَامَةِ ذِكْرُ الْقَسَامَةِ الَّتِي كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَوَّلُ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ، مِنْ فَخِذِ أَحَدِهِمْ قَالَ: فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ، فَأَعْطَاهُ عِقَالًا يَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ، فَلَمَّا نَزَلُوا، وَعُقِلَتْ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا، فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ: مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ، لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ؟ قَالَ: لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ قَالَ: فَأَيْنَ عِقَالُهُ؟ قَالَ: مَرَّ بِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَاسْتَغَاثَنِي، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي، لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ، فَأَعْطَيْتُهُ عِقَالًا فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ: أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ؟ قَالَ: مَا أَشْهَدُ، وَرُبَّمَا شَهِدْتُ، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: إِذَا شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ، فَنَادِ: يَا آلَ هَاشِمٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ، فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ، وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ، فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ، أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا؟ قَالَ: مَرِضَ، فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَاتَ، فَنَزَلْتُ، فَدَفَنْتُهُ، فَقَالَ كَانَ ذَا أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ، فَمَكُثَ حِينًا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الْيَمَانِيَّ الَّذِي كَانَ أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبَلِّغَ عَنْهُ، وَافَى الْمَوْسِمَ، قَالَ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، قَالُوا: هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَالَ: يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ، قَالُوا: هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ، قَالَ: أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ؟ قَالَ: هَذَا أَبُو طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبَلِّغَكَ رِسَالَةً، أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ، فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا خَطَأً، وَإِنْ شِئْتَ يَحْلِفْ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ أَنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ. فَأَتَى قَوْمَهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَقَالُوا: نَحْلِفُ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ. فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَالِبٍ، أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ، فَفَعَلَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنَ الْإِبِلِ، يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ فَهَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ، فَقَبِلَهُمَا، وَجَاءَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا حَلَفُوا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَالْأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4710

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل زمانہ جاہلیت، یعنی قبل از اسلام کی قسامت کا بیان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جاہلیت میں سب سے پہلی قسامت اس طرح ہوئی کہ بنو ہاشم میں سے ایک آدمی کو کسی دوسرے قبیلے کے ایک قریشی نے اجرت پر اپنے پاس رکھا۔ وہ نوکر اس قریشی کے ساتھ اس کے اونٹوں میں گیا۔ اتفاقاً بنو ہاشم کا ایک آدمی اس کے پاس سے گزرا۔ اس کے بورے کے منہ کی رسی ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے ہاشمی نوکر سے کہا: مجھے ایک رسی دو جس سے میں اپنے بورے کا منہ باندھ لوں تاکہ اونٹ نہ گھبرائیں۔ اس نوکر نے اسے ایک اونٹ کی گھٹنا باندھنے والی رسی دے دی تاکہ وہ اپنے بورے کا منہ باندھ لے۔ جب وہ آگے جا کر کسی منزل میں اترے اور اونٹوں کے گھٹنے باندھے گئے تو ایک اونٹ کھلا رہ گیا۔ مالک نے کہا: کیا وجہ ہے کہ اس ایک اونٹ کا گھٹنا نہیں باندھا گیا؟ اس نے کہا: اس کی رسی نہیں۔ اس نے کہا: اس کی رسی کھر گئی؟ اس نے بتایا کہ میرے پاس بنو ہاشم کا ایک آدمی گزرا تھا۔ اس کے بورے کے منہ والی رسی ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے مجھ سے مدد طلب کی اور کہا کہ مجھے ایک رسی دے جس کے ساتھ میں اپنے بورے کا منہ باندھ لوں تاکہ اونٹ نہ گھبرائیں۔ میں نے اس کو دے دی۔ مالک نے (غصے میں) اس کی طرف زور سے لاٹھی پھینکی جو اس کی موت کا باعث بن گئی۔ (وہ قریب المرگ تھا کہ) اتنے میں ادھر سے ایک یمنی آدمی گزرا۔ اس (ہاشمی نوکر) نے یمنی سے کہا: کیا تو موسم حج میں (مکہ مکرمہ) جاتا ہے؟ اس نے کہا: عام تو نہیں جاتا، کبھی کبھار جاتا ہوں۔ اس نے کہا: کیا تو اپنی ساری عمر میں کسی بھی وقت میرا یہ پیغام پہنچائے گا؟ اس نے کہا: ضرور۔ اس نے کہا: جب تو موسم حج میں جائے تو اعلان کرنا: اے قریشیو! جب وہ آجائیں تو بنو ہاشم کے بارے میں پوچھنا اور اسے بتانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کی وجہ سے قتل کر دیا ہے۔ (اتنی بات کہہ کر) وہ نوکر مر گیا۔ جب وہ شخص واپس (مکے) آیا جس نے اسے نوکر رکھا تھا تو ابو طالب اس کے پاس گئے اور پوچھا: ہمارے آدمی کا کیا بنا؟ اس نے کہا: وہ (راستے میں) بیمار ہوگیا تھا۔ میں نے اس کی خوب تیمارداری کی مگر وہ فوت ہوگیا۔ میں نے پڑاؤ کیا اور اس کا کفن دفن کیا۔ وہ کہنے لگے: واقعی وہ تجھ سے اسی سلوک کا اہل تھا۔ پھر کچھ عرصہ گزرا تو وہ یمنی شخص جسے اس نوکر نے وصیت کی تھی کہ یہ پیغام پہنچائے، موسم حج میں آگیا۔ اس نے اعلان کیا: اے قریشیو! لوگوں نے کہا: یہ قریشی ہیں۔ پھر اس نے کہا: اے ہاشمیو! لوگوں نے کہا: یہ ہاشمی ہیں۔ اس نے کہا: ابو طالب کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: یہ ابو طالب ہیں۔ اس نے کہا: مجھے فلاں شخص نے کہا تھا کہ میں تجھے یہ پیغام پہنچا دوں کہ فلاں شخص نے اسے ایک رسی کی بنا پر قتل کیا ہے۔ تب ابو طالب اس (قاتل) کے پاس ائے اور کہا: ہماری طرف سے تین باتوں میں سے کوئی ایک قبول کر لے: اگر تو چاہے تو سو اونٹ بطور دیت ادا کر کیونکہ تو نے ہمارا آدمی خطاً (غلطی سے) قتل کیا ہے۔ اگر تو چاہے تو تیری قوم کے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ تو نے اسے قتل نہیں کیا۔ اگر تو ان دونوں باتوں کو تسلیم نہیں کرے گا تو ہم تجھے اس کے بدلے قتل کر دیں گے۔ وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور ان سے یہ ساری بات ذکر کی۔ انھوں نے کہا: ہم قسمیں کھائیں گے۔ بنو ہاشم کی ایک عورت جو اس قبیلے کے ایک آدمی کے نکاح میں تھی اور اس سے اس کی اولاد بھی تھی، ابو طالب کے پاس آئی اور کہنے لگی: ابو طالب! میں چاہتی ہوں کہ تو میرے بیٹے کو پچاس آدمیوں پر پڑنے والی قسم معاف کر دے اور اس سے قسم نہ لے۔ ابو طالب مان گئے۔ اس قبیلے میں سے ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا: ابو طالب! تو سو اونٹوں کے عوض پچاس آدمیوں سے قسمیں لینا چاہتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر آدمی کو دو اونٹ پڑتے ہیں۔ یہ دو اونٹ میری طرف سے قبول کر لے اور جب قسمیں لی جائیں تو میری قسم نہ لی جائے۔ ابو طالب نے دو اونٹ لے لیے۔ باقی ارٹتالیس آدمی آئے اور انھوں نے قسمیں کھائیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابھی پورا سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ان اڑتالیس آدمیوں میں سے کوئی ایک آنکھ حرکت کرتی ہو۔ (سارے کے سارے مر گئے)۔
تشریح : (۱) اسلام سے پہلے تمام اصول وضوابط اور شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں، تاہم جو اصول وضوابط اور احکام رسول اللہﷺ نے باقی رکھے ہیں، وہ اب بھی باقی ہیں، ایسے احکام کی حیثیت اسلامی احکام ہی کی ہے۔ یہ اسی طرح واجب اطاعت ہیں جس طرح قرآن وحدیث کے دیگر احکام ہیں۔ (۲) جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ اس کا وبال، قسم کھانے والے پر بہر صورت پڑتا ہے (جیسا کہ اس حدیث میں مذکور لوگوں پر پڑا) خواہ یہ وبال دنیا میں پڑ جائے یا آخرت میں، الا یہ کہ ایسا شخص سچی توبہ کر لے۔ (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا ہلاک کر دینے والا کبیرہ گناہ ہے۔ یہ جرم اس قدر سنگین ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اس کی شناعت کے قائل تھے۔ اور اس کی روک تھام کے لیے ہر طرح کوششیں کی جاتی تھیں، تاہم کمزور، طاقتور سے بدلہ نہیں لے سکتا تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف اس جرم کی قباحت کو بیان کیا بلکہ اسے روکنے کے لیے ترغیب و ترہیب کے ساتھ ساتھ قانون بھی مقرر فرمایا۔ اس کی شناعت کی بابت ارشاد باری تعالیٰ ہے: {مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَ مَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا} (المآئدۃ: ۳۲) ’’جس شخص نے کسی ایک جان کو، کسی جان کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد مچانے کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں (ساری نسل انسانی) کو قتل کیا اور جس نے اسے (ایک جان کو) زندہ کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کیا۔‘‘ نیز ارشاد ربانی ہے: {وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًاo} (النسآئ: ۹۳) ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اللہ اس پر غضب ناک ہوا اور اس پر لعنت کی۔ اور اس نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ ایک شخص کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دینے والا دین، شر وفساد کے پھیلانے کی کس طرح حوصلہ افزائی کر سکتا ہے؟ مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں جو زہر اگلا جاتا ہے وہ یہود وہنود کی سازش ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ نام نہاد مسلمان بھی اس باطل پروپیگنڈے کا شکار ہو چکے ہیں اور کافروں کے آلہ کاربن کر اسلام کے روشن چہرے کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ (۴) قسامت قسم کی ایک خاص صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے لیکن اس کے قاتل کا پتا نہ چلے یا کچھ لوگوں پر شک ہو کہ وہ قتل میں ملوث ہیں مگر کوئی ثبوت نہ ہو تو مدعین سے پچاس قسمیں لی جائیں گی۔ اگر وہ نہ دیں تو مدعی، علیہم کے پچاس معتبر آدمیوں سے قسم لی جائے کہ نہ ہم نے اسے قتل کیا ہے نہ ہی قاتل کو جانتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس علاقے کے لوگ قتل کے الزام سے بری ہو جائیں گے۔ مذکورہ واقعے میں بھی قاتل تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ اور موقع کی گواہی نہیں تھی، صرف زبانی پیغام تھا، لہٰذا وہ مشکوک ہوگیا اور اس سے قسمیں لی گئیں۔ مدعین قسمیں اس لیے نہیں اٹھا سکتے تھے کہ انھوں نے دیکھا نہیں تھا۔ (۵) قسامت اگرچہ جاہلیت کا رواج تھا مگر چونکہ صحیح تھا، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اسے برقرار رکھا۔ یہ اب بھی مشروع ہے۔ (۶) ’’اونٹوں میں گیا‘‘ یعنی اس کے ساتھ سفر پر گیا۔ ساتھ اونٹ بھی تھے۔ (۷) ’’اونٹ نہ گھبرائیں‘‘ بورے کی چیزوں کے گرنے کی وجہ سے اونٹ ڈرتے تھے۔ (۸) ’’اسی سلوک کا اہل تھا‘‘ کیونکہ وہ ایک معزز قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ (۹) ’’خطاً قتل کیا ہے‘‘ کیونکہ اس کا مقصد قتل کرنا نہیں تھا بلکہ ویسے لاٹھی مارنا تھا، تاہم وہ کسی نازک جگہ پر لگی جو اس کی موت کا سبب بن گئی۔ قتل خطا میں قصاص نہیں لیا جا سکتا بلکہ دیت وصول کی جائے گی۔ (۱۰) ’’قسمیں کھائیں‘‘ یعنی جھوٹی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے آدمی سے قتل ہوا ہے لیکن دیت سے بچنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھائیں۔ یاد رہے قتل خطا میں دیت قاتل کے قبیلے کو بھرنا پڑتی ہے۔ (۱۱) ’’کوئی ایک آنکھ حرکت کرتی ہو۔‘‘ یعنی ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہا۔ زندہ آدمی کی آنکھ ہی حرکت کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ شاید رسول اللہﷺ نے خود بتایا ہو، تبھی تو وہ قسم کھا کر اس زور دار طریقے سے بیان فرما رہے ہیں۔ (۱۴) ضروری نہیں کہ ہر جھوٹی قسم کا انجام یہی ہو۔ کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کوئی نشانی دکھانا چاہے۔ رسول اللہﷺ کی بعثت سے قبل بہت سے ایسے خلاف عادت واقعات ہوئے تھے۔ (۱۳) یہ حدیث حرم کی عظمت وحرمت پر بھی واضح دلالت کرتی ہے اور یہ کہ جس کسی نے بھی حرم یا حدودِ حرم میں معاصی وغیرہ کا ارتکاب کیا، اس پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسا اور وہ نشانِ عبرت بن گیا۔ (۱) اسلام سے پہلے تمام اصول وضوابط اور شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں، تاہم جو اصول وضوابط اور احکام رسول اللہﷺ نے باقی رکھے ہیں، وہ اب بھی باقی ہیں، ایسے احکام کی حیثیت اسلامی احکام ہی کی ہے۔ یہ اسی طرح واجب اطاعت ہیں جس طرح قرآن وحدیث کے دیگر احکام ہیں۔ (۲) جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ اس کا وبال، قسم کھانے والے پر بہر صورت پڑتا ہے (جیسا کہ اس حدیث میں مذکور لوگوں پر پڑا) خواہ یہ وبال دنیا میں پڑ جائے یا آخرت میں، الا یہ کہ ایسا شخص سچی توبہ کر لے۔ (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا ہلاک کر دینے والا کبیرہ گناہ ہے۔ یہ جرم اس قدر سنگین ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اس کی شناعت کے قائل تھے۔ اور اس کی روک تھام کے لیے ہر طرح کوششیں کی جاتی تھیں، تاہم کمزور، طاقتور سے بدلہ نہیں لے سکتا تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف اس جرم کی قباحت کو بیان کیا بلکہ اسے روکنے کے لیے ترغیب و ترہیب کے ساتھ ساتھ قانون بھی مقرر فرمایا۔ اس کی شناعت کی بابت ارشاد باری تعالیٰ ہے: {مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَ مَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا} (المآئدۃ: ۳۲) ’’جس شخص نے کسی ایک جان کو، کسی جان کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد مچانے کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں (ساری نسل انسانی) کو قتل کیا اور جس نے اسے (ایک جان کو) زندہ کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کیا۔‘‘ نیز ارشاد ربانی ہے: {وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًاo} (النسآئ: ۹۳) ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اللہ اس پر غضب ناک ہوا اور اس پر لعنت کی۔ اور اس نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ ایک شخص کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دینے والا دین، شر وفساد کے پھیلانے کی کس طرح حوصلہ افزائی کر سکتا ہے؟ مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں جو زہر اگلا جاتا ہے وہ یہود وہنود کی سازش ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ نام نہاد مسلمان بھی اس باطل پروپیگنڈے کا شکار ہو چکے ہیں اور کافروں کے آلہ کاربن کر اسلام کے روشن چہرے کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ (۴) قسامت قسم کی ایک خاص صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے لیکن اس کے قاتل کا پتا نہ چلے یا کچھ لوگوں پر شک ہو کہ وہ قتل میں ملوث ہیں مگر کوئی ثبوت نہ ہو تو مدعین سے پچاس قسمیں لی جائیں گی۔ اگر وہ نہ دیں تو مدعی، علیہم کے پچاس معتبر آدمیوں سے قسم لی جائے کہ نہ ہم نے اسے قتل کیا ہے نہ ہی قاتل کو جانتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس علاقے کے لوگ قتل کے الزام سے بری ہو جائیں گے۔ مذکورہ واقعے میں بھی قاتل تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ اور موقع کی گواہی نہیں تھی، صرف زبانی پیغام تھا، لہٰذا وہ مشکوک ہوگیا اور اس سے قسمیں لی گئیں۔ مدعین قسمیں اس لیے نہیں اٹھا سکتے تھے کہ انھوں نے دیکھا نہیں تھا۔ (۵) قسامت اگرچہ جاہلیت کا رواج تھا مگر چونکہ صحیح تھا، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اسے برقرار رکھا۔ یہ اب بھی مشروع ہے۔ (۶) ’’اونٹوں میں گیا‘‘ یعنی اس کے ساتھ سفر پر گیا۔ ساتھ اونٹ بھی تھے۔ (۷) ’’اونٹ نہ گھبرائیں‘‘ بورے کی چیزوں کے گرنے کی وجہ سے اونٹ ڈرتے تھے۔ (۸) ’’اسی سلوک کا اہل تھا‘‘ کیونکہ وہ ایک معزز قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ (۹) ’’خطاً قتل کیا ہے‘‘ کیونکہ اس کا مقصد قتل کرنا نہیں تھا بلکہ ویسے لاٹھی مارنا تھا، تاہم وہ کسی نازک جگہ پر لگی جو اس کی موت کا سبب بن گئی۔ قتل خطا میں قصاص نہیں لیا جا سکتا بلکہ دیت وصول کی جائے گی۔ (۱۰) ’’قسمیں کھائیں‘‘ یعنی جھوٹی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے آدمی سے قتل ہوا ہے لیکن دیت سے بچنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھائیں۔ یاد رہے قتل خطا میں دیت قاتل کے قبیلے کو بھرنا پڑتی ہے۔ (۱۱) ’’کوئی ایک آنکھ حرکت کرتی ہو۔‘‘ یعنی ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہا۔ زندہ آدمی کی آنکھ ہی حرکت کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ شاید رسول اللہﷺ نے خود بتایا ہو، تبھی تو وہ قسم کھا کر اس زور دار طریقے سے بیان فرما رہے ہیں۔ (۱۴) ضروری نہیں کہ ہر جھوٹی قسم کا انجام یہی ہو۔ کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کوئی نشانی دکھانا چاہے۔ رسول اللہﷺ کی بعثت سے قبل بہت سے ایسے خلاف عادت واقعات ہوئے تھے۔ (۱۳) یہ حدیث حرم کی عظمت وحرمت پر بھی واضح دلالت کرتی ہے اور یہ کہ جس کسی نے بھی حرم یا حدودِ حرم میں معاصی وغیرہ کا ارتکاب کیا، اس پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسا اور وہ نشانِ عبرت بن گیا۔