سنن النسائي - حدیث 4706

كِتَابُ الْبُيُوعِ ذِكْرُ الشُّفْعَةِ وَأَحْكَامِهَا صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4706

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل شفعہ اور اس کے احکام حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حق رکھتا ہے۔‘‘
تشریح : سنن اور مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسی مفہوم کی روایت ہے۔ اس میں یہ شرط بھی ہے ’’بشرطیکہ ان کا راستہ ایک ہو۔‘‘ (مسند احمد: ۳/ ۳۰۳، وسنن ابی داود، الاجارۃ، حدیث: ۳۵۱۸) گویا پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق ہے اگر وہر استے وغیرہ میں شریک ہو۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ہو جائے گا۔ بعض حضرات نے صرف پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق دیا ہے، خواہ وہ کسی لحاظ سے بھی شریک نہ ہو لیکن اس سے صحیحین کی متفقہ روایات کی خلاف ورزی ہوگی جن میں تقسیم اور راستے الگ الگ ہونے کے بعد شفعہ کی صراحتاً نفی کی گئی ہے۔ (مثلاً: دیکھیے، حدیث: ۴۷۰۸) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے شفعہ کی دو قسمیں قرار دی ہیں: شفعہ واجب اور شفعہ مستحب۔ شفعہ واجب تو شریک کے لیے ہی ہے، خواہ اصل چیز میں شریک ہو یا راستے وغیرہ میں۔ صرف پڑوسی جو کسی بھی لحاظ سے شریک نہ ہو، وہ شفعہ مستحب کا حق دار ہے، یعنی اچھی بات ہے کہ فروخت کرنے سے پہلے پڑوسی سے بھی پوچھ لیا جائے، ضروری نہیں۔ وہ عدالت میں دعویٰ بھی نہیں کر سکتا اور اس کے کہنے سے بیع فسخ بھی نہیں ہو سکتی جبکہ شریک سے پوچھ لینا ضروری ہے ورنہ عدالت میں یہ دعویٰ کر کے بیع فسخ کروا سکتا ہے۔ یہ تطبیق بھی مناسب ہے۔ واللہ اعلم (باقی تفصیل دیکھیے، حدیث: ۴۶۵۰) سنن اور مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسی مفہوم کی روایت ہے۔ اس میں یہ شرط بھی ہے ’’بشرطیکہ ان کا راستہ ایک ہو۔‘‘ (مسند احمد: ۳/ ۳۰۳، وسنن ابی داود، الاجارۃ، حدیث: ۳۵۱۸) گویا پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق ہے اگر وہر استے وغیرہ میں شریک ہو۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ہو جائے گا۔ بعض حضرات نے صرف پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق دیا ہے، خواہ وہ کسی لحاظ سے بھی شریک نہ ہو لیکن اس سے صحیحین کی متفقہ روایات کی خلاف ورزی ہوگی جن میں تقسیم اور راستے الگ الگ ہونے کے بعد شفعہ کی صراحتاً نفی کی گئی ہے۔ (مثلاً: دیکھیے، حدیث: ۴۷۰۸) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے شفعہ کی دو قسمیں قرار دی ہیں: شفعہ واجب اور شفعہ مستحب۔ شفعہ واجب تو شریک کے لیے ہی ہے، خواہ اصل چیز میں شریک ہو یا راستے وغیرہ میں۔ صرف پڑوسی جو کسی بھی لحاظ سے شریک نہ ہو، وہ شفعہ مستحب کا حق دار ہے، یعنی اچھی بات ہے کہ فروخت کرنے سے پہلے پڑوسی سے بھی پوچھ لیا جائے، ضروری نہیں۔ وہ عدالت میں دعویٰ بھی نہیں کر سکتا اور اس کے کہنے سے بیع فسخ بھی نہیں ہو سکتی جبکہ شریک سے پوچھ لینا ضروری ہے ورنہ عدالت میں یہ دعویٰ کر کے بیع فسخ کروا سکتا ہے۔ یہ تطبیق بھی مناسب ہے۔ واللہ اعلم (باقی تفصیل دیکھیے، حدیث: ۴۶۵۰)