سنن النسائي - حدیث 47

ذِكْرُ الْفِطْرَةِ النَّهْيُ عَنْ الِاسْتِنْجَاءِ بِالْيَمِينِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ أَنْبَأَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي إِنَائِهِ وَإِذَا أَتَى الْخَلَاءَ فَلَا يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ وَلَا يَتَمَسَّحْ بِيَمِينِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 47

کتاب: امور فطرت کا بیان دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی پیے تو برتن میں (پیتے ہوئے) سانس نہ لے اور جب قضائے حاجت کرے تو دائیں ہاتھ سے اپنی شرم گاہ نہ چھوئے اور نہ دائیں ہاتھ سے استنجا ہی کرے۔‘‘
تشریح : (۱) برتن میں سانس لینے سے مراد یہ ہے کہ پیتے پیتے سانس لے، یہ ممنوع ہے۔ شاید یہ ممانعت اس لیے ہوا کہ اس صورت میں ناک سے سانس کے ساتھ غلاظت خارج ہونے کا احتمال ہوتا ہے کہ جس سے مشروب آلودہ ہو جائے گا، نیز سانس کے ساتھ پھیپھڑے کے فاسد مادوں کی آمیزش ہوتی ہے وہ بھی پانی میں شامل ہو جائیں گے، نیز اس میں جانوروں سے مشابہت ہے، وہ پیتے پیتے سانس لیتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کیا جائے۔ (۲) چونکہ دایاں ہاتھ کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔ اور عقل سلیم بھی اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ کھانے اور استنجے کے لیے ایک ہی ہاتھ کا استعمال نہ ہو۔ (۱) برتن میں سانس لینے سے مراد یہ ہے کہ پیتے پیتے سانس لے، یہ ممنوع ہے۔ شاید یہ ممانعت اس لیے ہوا کہ اس صورت میں ناک سے سانس کے ساتھ غلاظت خارج ہونے کا احتمال ہوتا ہے کہ جس سے مشروب آلودہ ہو جائے گا، نیز سانس کے ساتھ پھیپھڑے کے فاسد مادوں کی آمیزش ہوتی ہے وہ بھی پانی میں شامل ہو جائیں گے، نیز اس میں جانوروں سے مشابہت ہے، وہ پیتے پیتے سانس لیتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کیا جائے۔ (۲) چونکہ دایاں ہاتھ کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔ اور عقل سلیم بھی اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ کھانے اور استنجے کے لیے ایک ہی ہاتھ کا استعمال نہ ہو۔