سنن النسائي - حدیث 4698

كِتَابُ الْبُيُوعِ حُسْنُ الْمُعَامَلَةِ وَالرِّفْقُ فِي الْمُطَالَبَةِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ، وَكَانَ يُدَايِنُ النَّاسَ، فَيَقُولُ لِرَسُولِهِ: خُذْ مَا تَيَسَّرَ، وَاتْرُكْ مَا عَسُرَ وَتَجَاوَزْ، لَعَلَّ اللَّهَ تَعَالَى أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا، فَلَمَّا هَلَكَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ قَالَ: لَا. إِلَّا أَنَّهُ كَانَ لِي غُلَامٌ وَكُنْتُ أُدَايِنُ النَّاسَ، فَإِذَا بَعَثْتُهُ لِيَتَقَاضَى قُلْتُ لَهُ: خُذْ مَا تَيَسَّرَ، وَاتْرُكْ مَا عَسُرَ، وَتَجَاوَزْ لَعَلَّ اللَّهَ يَتَجَاوَزُ عَنَّا. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَدْ تَجَاوَزْتُ عَنْكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4698

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل لین دین اور قرض کی واپسی کا مطالبہ اچھے طریقے اور نرمی سے کرنا چاہیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ایک آدمی نے کبھی نیکی نہیں کی تھی۔ وہ لوگوں سے لین دین کیا کرتا تھا۔ وہ اپنے کارندے سے کہتا تھا کہ جو آسانی سے مہیا ہو سکے، لے لینا اور جس میں مقروض کو تنگی ہو، وہ چھوڑ دینا بلکہ معاف کر دینا۔ امید ہے اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف کرے گا، پھر جب وہ فوت ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا: کیا تو نے کبھی کوئی نیکی کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، مگر میرا ایک غلام تھا اور میں لوگوں سے لین دین کیا کرتا تھا۔ جب میں اسے وصولی کے لیے بھیجتا تھا تو میں اسے کہتا تھا: جو آسانی سے مل جائے، لے لینا اور جس میں دینے والے کو تنگی ہو، چھوڑ دینا اور معاف کر دینا۔ شاید اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جا میں نے تجھے معاف کر دیا۔‘‘
تشریح : (۱) جو شخص اللہ عزوجل کے بندوں کے ساتھ حسن معاملہ اور شفقت ونرمی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اللہ عزوجل بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ فرمائے گا، اور اس کا بدلہ جنت کی صورت میں دے گا۔ (۲) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سابقہ شریعت بھی ہمارے لیے، ہماری اپنی شریعت ہی کی طرح واجب العمل اور واجب الطاعۃ ہے الا یہ کہ قرآن وحدیث کی تردید کر دیں۔ اس مسئلے کی بابت اگرچہ اہل علم کا اختلاف ہے، تاہم اہل علم کا صحیح قول ہے یہی ہے۔ امام بخاری، امام مسلم اور امام نسائیM وغیرہ کا مسلک یہی ہے۔ (۳)اس حدیث مبارکہ سے جہاں تنگ دست شخص کو مہلت دینے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے وہاں مفلس و قلاش شخص کے ذمہ تمام یا کچھ قرض معاف کر دینے کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔ {وَفِی ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ} (المطففین۸۳: ۲۶) (۴) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی معمولی سی نیکی بھی بہت سے گناہوں کے مٹا دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ (۵) غلام کو وکیل بنانے اور معاملات میں تصرف کرنے کا اختیار دینا جائز ہے۔ (۶) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان خود نیکی کا کام نہ کرے بلکہ کسی اور سے کرائے تو اس کام کرنے والے کے ساتھ ساتھ کرانے والے کو بھی پورا اجر ملے گا۔ (۷) شریعت مطہرہ نے یہ ہدایات اس لیے دی ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے والے شخص کو بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ بالکل واضح بات ہے کہ خوش اخلاقی بہت بڑی نیکی ہے، نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ خوش اخلاق تاجر کے کاروبار میں بہت برکت ہوتی ہے۔ (۱) جو شخص اللہ عزوجل کے بندوں کے ساتھ حسن معاملہ اور شفقت ونرمی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اللہ عزوجل بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ فرمائے گا، اور اس کا بدلہ جنت کی صورت میں دے گا۔ (۲) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سابقہ شریعت بھی ہمارے لیے، ہماری اپنی شریعت ہی کی طرح واجب العمل اور واجب الطاعۃ ہے الا یہ کہ قرآن وحدیث کی تردید کر دیں۔ اس مسئلے کی بابت اگرچہ اہل علم کا اختلاف ہے، تاہم اہل علم کا صحیح قول ہے یہی ہے۔ امام بخاری، امام مسلم اور امام نسائیM وغیرہ کا مسلک یہی ہے۔ (۳)اس حدیث مبارکہ سے جہاں تنگ دست شخص کو مہلت دینے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے وہاں مفلس و قلاش شخص کے ذمہ تمام یا کچھ قرض معاف کر دینے کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔ {وَفِی ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ} (المطففین۸۳: ۲۶) (۴) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی معمولی سی نیکی بھی بہت سے گناہوں کے مٹا دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ (۵) غلام کو وکیل بنانے اور معاملات میں تصرف کرنے کا اختیار دینا جائز ہے۔ (۶) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان خود نیکی کا کام نہ کرے بلکہ کسی اور سے کرائے تو اس کام کرنے والے کے ساتھ ساتھ کرانے والے کو بھی پورا اجر ملے گا۔ (۷) شریعت مطہرہ نے یہ ہدایات اس لیے دی ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے والے شخص کو بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ بالکل واضح بات ہے کہ خوش اخلاقی بہت بڑی نیکی ہے، نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ خوش اخلاق تاجر کے کاروبار میں بہت برکت ہوتی ہے۔