سنن النسائي - حدیث 4688

كِتَابُ الْبُيُوعِ التَّغْلِيظُ فِي الدَّيْنِ حسن أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، عَنْ إِسْمَعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ، مَوْلَى مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، ثُمَّ وَضَعَ رَاحَتَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ، مَاذَا نُزِّلَ مِنَ التَّشْدِيدِ» فَسَكَتْنَا وَفَزِعْنَا، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ، سَأَلْتُهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذَا التَّشْدِيدُ الَّذِي نُزِّلَ؟ فَقَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيِيَ، ثُمَّ قُتِلَ ثُمَّ أُحْيِيَ، ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ دَيْنُهُ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4688

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل قرض کی بابت شدید و عید حضرت محمد بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا۔ پھر اپنی ہتھیلی اپنی پیشانی پر رکھی، پھر فرمایا: ’’سبحان اللہ! کس قدر سخت حکم اترا ہے؟‘‘ ہم خاموش رہے لیکن گھبرا گئے۔ اگلے دن میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کیا سخت حکم تھا؟ آپ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر کوئی آدمی اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید کیا جائے، پھر اسے زندہ کیا جائے، پھر شہید کیا جائے، پھر زندہ کیا جائے، پھر شہید کیا جائے جبکہ اس کے ذمے قرض واجب الادا ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا حتیٰ کہ اس کے ذمے واجب الادا قرض اس کی طرف سے ادا کر دیا جائے۔‘‘
تشریح : (۱) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد قرض کی بابت شریعت کی سخت ترین وعید بیان کرنا ہے، یعنی جو آدمی قرض لے اور پھر اسے ادا کیے بغیر مر جائے تو اس کے لیے آخرت کے مراحل انتہائی مشکل ہوں گے بلکہ اس کے لیے جنت کا داخلہ بھی بند کر دیا جاتا ہے، لہٰذا قرض لینے سے ممکن حد تک بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر قرض لینا ناگزیر ہو تو پھر اس کی جلد از جلد واپسی اور ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ (۲) شہید فوت ہوتے ہی جنت میں پہنچ جاتا ہے اور جنت میں اڑتا پھرتا ہے، تاہم قرض رکاوٹ بن جاتا ہے حتی کہ قرض ادا کر دیا جائے۔ یا قرض خواہ راضی ہو جائے۔ اپنے آپ راضی ہو جائے یا اللہ تعالیٰ اسے راضی فرما دے۔ (۱) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد قرض کی بابت شریعت کی سخت ترین وعید بیان کرنا ہے، یعنی جو آدمی قرض لے اور پھر اسے ادا کیے بغیر مر جائے تو اس کے لیے آخرت کے مراحل انتہائی مشکل ہوں گے بلکہ اس کے لیے جنت کا داخلہ بھی بند کر دیا جاتا ہے، لہٰذا قرض لینے سے ممکن حد تک بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر قرض لینا ناگزیر ہو تو پھر اس کی جلد از جلد واپسی اور ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ (۲) شہید فوت ہوتے ہی جنت میں پہنچ جاتا ہے اور جنت میں اڑتا پھرتا ہے، تاہم قرض رکاوٹ بن جاتا ہے حتی کہ قرض ادا کر دیا جائے۔ یا قرض خواہ راضی ہو جائے۔ اپنے آپ راضی ہو جائے یا اللہ تعالیٰ اسے راضی فرما دے۔