سنن النسائي - حدیث 4683

كِتَابُ الْبُيُوعِ الرَّجُلُ يَبِيعُ السِّلْعَةَ فَيَسْتَحِقُّهَا مُسْتَحِقٌّ صحيح الإسناد ، لكن الصواب " أسيد بن ظهير " أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرِ بْنِ سِمَاكٍ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّهُ إِذَا وَجَدَهَا فِي يَدِ الرَّجُلِ غَيْرِ الْمُتَّهَمِ، فَإِنْ شَاءَ أَخَذَهَا بِمَا اشْتَرَاهَا، وَإِنْ شَاءَ اتَّبَعَ سَارِقَهُ، وَقَضَى بِذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4683

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل ایک شخص کوئی سامان بیچتا ہے، بعد میں اس سامان کا مالک کوئی اور نکل آتا ہے تو؟ حضرت اسید بن حضیر بن سماک رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ جب کوئی آدمی اپنی چیز ایسے شخص کے ہاتھ میں پائے جو مشکوک اور متہم نہ ہو، اگر وہ چاہے تو اس سے وہ چیز اتنی رقم دے کر جتنی کی اس نے خریدی ہے لے لے۔ اور اگر چاہے تو (اصل) چور کا پیچھا کرے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی فیصلہ فرمایا۔
تشریح : (۱) ’’اپنی چیز‘‘ جو چوری ہو چکی تھی یا کسی نے چھین لی تھی۔‘‘ (۲)’’مشکوک اور متہم نہ ہو‘‘ گویا وہ خود چور نہیں بلکہ اس نے چور سے خریدی ہے۔ ضروری نہیں کہ اسے اس کے چور ہونے کا علم ہو، البتہ اگر کسی کے چور ہونے کا علم ہو تو پھر اس سے کوئی چیز خریدنا ناجائز ہے کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ چیز چوری کی ہو گی۔ (۳)’’اتنی رقم دے کر جتنی کی اس نے خریدی ہے لے لے۔‘‘ یہ نیکی کی تلقین ہے ورنہ وہ اس چیز کا اصل مالک ہے لیکن چونکہ دوسرے شخص کا بھی کوئی قصور نہیں، لہٰذا اس کی رقم بھی ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس کا قصور ثابت ہو، مثلاً: اس نے جاننے کے باوجود کہ یہ چیز چوری کی ہے، اس چیز کو خریدا ہو تو اسے تاوان ڈالا جا سکتا ہے۔ آئندہ حدیث میں اس حدیث کے خلاف حکم ہے کہ اصل مالک اپنی چیز لے جائے گا۔ خریدار بیچنے والے سے اپنی رقم وصول کرے گا۔ یہ روایت اصول کے مطابق ہے مگر خلفائے راشدین کا فیصلہ پہلی حدیث پر ہے۔ گویا حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر دوسرا شخص بالکل بے گناہ ہو تو پہلی حدیث کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، مثلاً: بیچنے والے کا علم نہیں ہو سکتا یا وہ بھاگ گیا ہو یا وہ مر چکا ہو وغیرہ۔ اور اگر اس کا بھی قصور ہو، مثلاً: اسے علم تھا کہ یہ چیز چوری کی ہے یا بیچنے والے سے رقم مل سکتی ہے تو پھر دوسری حدیث کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ گویا دونوں احادیث کا محل ومقام الگ الگ ہے۔ واللہ اعلم! (۴)یہ اہم بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس حدیث کی سند میں امام نسائی رحمہ اللہ سے سہو ہوا ہے کہ انھوں نے صحابی کا نام ’’اسید بن حضیر بن سماک‘‘ بیان کیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ درست نام ہے: ’’اسید بن ظہیر‘‘ اس غلطی پر امام مزی رحمہ اللہ نے اپنی معروف تالیف ’’تہذیب الکمال‘‘ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ دیکھیے: (تھذیب الکمال: ۲: ۲۶۴، ۲۶۵) یہ صحابی اسید بن ظہیر ہی ہیں کیونکہ حضرت اسید بن حفیر رضی اللہ تعالٰی عنہ تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوئے ہیں اور ان کی نماز جنازہ بھی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جو شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ مبارک میں فوت ہو جائے، بھلا وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا زمانہ کس طرح پا سکتا ہے؟ (۱) ’’اپنی چیز‘‘ جو چوری ہو چکی تھی یا کسی نے چھین لی تھی۔‘‘ (۲)’’مشکوک اور متہم نہ ہو‘‘ گویا وہ خود چور نہیں بلکہ اس نے چور سے خریدی ہے۔ ضروری نہیں کہ اسے اس کے چور ہونے کا علم ہو، البتہ اگر کسی کے چور ہونے کا علم ہو تو پھر اس سے کوئی چیز خریدنا ناجائز ہے کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ چیز چوری کی ہو گی۔ (۳)’’اتنی رقم دے کر جتنی کی اس نے خریدی ہے لے لے۔‘‘ یہ نیکی کی تلقین ہے ورنہ وہ اس چیز کا اصل مالک ہے لیکن چونکہ دوسرے شخص کا بھی کوئی قصور نہیں، لہٰذا اس کی رقم بھی ضائع نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اس کا قصور ثابت ہو، مثلاً: اس نے جاننے کے باوجود کہ یہ چیز چوری کی ہے، اس چیز کو خریدا ہو تو اسے تاوان ڈالا جا سکتا ہے۔ آئندہ حدیث میں اس حدیث کے خلاف حکم ہے کہ اصل مالک اپنی چیز لے جائے گا۔ خریدار بیچنے والے سے اپنی رقم وصول کرے گا۔ یہ روایت اصول کے مطابق ہے مگر خلفائے راشدین کا فیصلہ پہلی حدیث پر ہے۔ گویا حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر دوسرا شخص بالکل بے گناہ ہو تو پہلی حدیث کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، مثلاً: بیچنے والے کا علم نہیں ہو سکتا یا وہ بھاگ گیا ہو یا وہ مر چکا ہو وغیرہ۔ اور اگر اس کا بھی قصور ہو، مثلاً: اسے علم تھا کہ یہ چیز چوری کی ہے یا بیچنے والے سے رقم مل سکتی ہے تو پھر دوسری حدیث کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ گویا دونوں احادیث کا محل ومقام الگ الگ ہے۔ واللہ اعلم! (۴)یہ اہم بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس حدیث کی سند میں امام نسائی رحمہ اللہ سے سہو ہوا ہے کہ انھوں نے صحابی کا نام ’’اسید بن حضیر بن سماک‘‘ بیان کیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ درست نام ہے: ’’اسید بن ظہیر‘‘ اس غلطی پر امام مزی رحمہ اللہ نے اپنی معروف تالیف ’’تہذیب الکمال‘‘ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ دیکھیے: (تھذیب الکمال: ۲: ۲۶۴، ۲۶۵) یہ صحابی اسید بن ظہیر ہی ہیں کیونکہ حضرت اسید بن حفیر رضی اللہ تعالٰی عنہ تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوئے ہیں اور ان کی نماز جنازہ بھی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جو شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ مبارک میں فوت ہو جائے، بھلا وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا زمانہ کس طرح پا سکتا ہے؟