سنن النسائي - حدیث 4680

كِتَابُ الْبُيُوعِ الرَّجُلُ يَبْتَاعُ الْبَيْعَ فَيُفْلِسُ، وَيُوجَدُ الْمَتَاعُ بِعَيْنِهِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَيُّمَا امْرِئٍ أَفْلَسَ ثُمَّ وَجَدَ رَجُلٌ عِنْدَهُ سِلْعَتَهُ بِعَيْنِهَا، فَهُوَ أَوْلَى بِهِ مِنْ غَيْرِهِ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4680

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل ایک آدمی کوئی چیز خریدتا ہے، پھر مفلس ہو جات اہے اور چیز بعینہ اس کے پاس پائی جاتی ہے تو؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مفلس قرار دیا جائے، پھر کوئی شخص اپنا سامان اس کے پاس بعینہٖ پا لے تو وہ اس سامان کا دوسروں سے زیادہ حق دار ہے۔‘‘
تشریح : مفلس وہ شخص ہوتا ہے جس پر اتنا قرض چڑھ جائے کہ وہ ادائیگی کے قابل نہ ہو۔ ہماری زبان میں اسے دیوالیہ کہتے ہیں۔ اس شخص پر یہ پابندی لگا دی جاتی ہے کہ تو اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا بلکہ اس کا مال فروخت کر کے جو کچھ میسر ہوتا ہے، وہ قرض خواہوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور باقی قرض اسے معاف ہو جاتا ہے، مثلاً: اگر اس پر دس ہزار روپے قرض ہیں مگر اس کا مال کل پانچ ہزار روپے میں فروخت ہو تو اس کے قرض خواہوں میں ان کے قرض کا نصف نصف دیا جائے گا اور باقی معاف ہوگا۔ اس حدیث میں ایک استثنا کیا گیا ہے کہ اگر کوئی کسی کی کوئی چیز بعینہٖ اس کے پاس ہو، خواہ وہ اسے عاریتاً دی گئی ہو یا بیچی گئی ہو اور اس نے ابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا ہو تو وہ چیز پوری کی پوری اس کے مالک کو دے دی جائے گی۔ وہ چیز فروخت کر کے تمام قرض خواہوں میں تقسیم نہیں ہو گی، البتہ اگر اس نے اس کی قیمت میں سے کچھ ادا کر دیا ہو تو پھر وہ باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی۔ اور اس کے مالک کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ ملا کر ان کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی، مثلاً: اگر ان کو ان کے قرض کا نصف دیا جا رہا ہو تو اسے بھی اس کے قرض کا نصف ہی دیا جائے گا۔ جمہور اہل علما س استثنا کو مانتے ہیں مگر احناف نے استثنا کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس سے دوسرے قرض خواہوں کی حق تلفی ہوگی کہ ان کو تو ان کے قرض کا مثلاً نصف ملا لیکن یہ شخص اپنی چیز پوری کی پوری لے گیا۔ ان کے نزدیک یہ چیز بھی باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی اور اس شخص کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی۔ احناف کی یہ بات درست نہیں کیونکہ اس شخص کو دوسرے قرض خواہوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کی چیز بعینہٖ مفلس کے پاس موجود ہے جبکہ دیگر لوگوں کا مال تلف ہو چکا ہے۔ اب یہ قطعاً درست نہیں کہ مالک کے ہوتے ہوئے اس کی چیز بیچ دی جائے اور اسے نہ دی جائے۔ یوں سمجھئے کہ وہ بیع کالعدم ہوگئی کیونکہ ابھی کوئی ادائیگی نہیں ہوئی، لہٰذا چیز اصل مالک کو واپس مل گئی۔ مفلس وہ شخص ہوتا ہے جس پر اتنا قرض چڑھ جائے کہ وہ ادائیگی کے قابل نہ ہو۔ ہماری زبان میں اسے دیوالیہ کہتے ہیں۔ اس شخص پر یہ پابندی لگا دی جاتی ہے کہ تو اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا بلکہ اس کا مال فروخت کر کے جو کچھ میسر ہوتا ہے، وہ قرض خواہوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور باقی قرض اسے معاف ہو جاتا ہے، مثلاً: اگر اس پر دس ہزار روپے قرض ہیں مگر اس کا مال کل پانچ ہزار روپے میں فروخت ہو تو اس کے قرض خواہوں میں ان کے قرض کا نصف نصف دیا جائے گا اور باقی معاف ہوگا۔ اس حدیث میں ایک استثنا کیا گیا ہے کہ اگر کوئی کسی کی کوئی چیز بعینہٖ اس کے پاس ہو، خواہ وہ اسے عاریتاً دی گئی ہو یا بیچی گئی ہو اور اس نے ابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا ہو تو وہ چیز پوری کی پوری اس کے مالک کو دے دی جائے گی۔ وہ چیز فروخت کر کے تمام قرض خواہوں میں تقسیم نہیں ہو گی، البتہ اگر اس نے اس کی قیمت میں سے کچھ ادا کر دیا ہو تو پھر وہ باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی۔ اور اس کے مالک کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ ملا کر ان کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی، مثلاً: اگر ان کو ان کے قرض کا نصف دیا جا رہا ہو تو اسے بھی اس کے قرض کا نصف ہی دیا جائے گا۔ جمہور اہل علما س استثنا کو مانتے ہیں مگر احناف نے استثنا کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس سے دوسرے قرض خواہوں کی حق تلفی ہوگی کہ ان کو تو ان کے قرض کا مثلاً نصف ملا لیکن یہ شخص اپنی چیز پوری کی پوری لے گیا۔ ان کے نزدیک یہ چیز بھی باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی اور اس شخص کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی۔ احناف کی یہ بات درست نہیں کیونکہ اس شخص کو دوسرے قرض خواہوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کی چیز بعینہٖ مفلس کے پاس موجود ہے جبکہ دیگر لوگوں کا مال تلف ہو چکا ہے۔ اب یہ قطعاً درست نہیں کہ مالک کے ہوتے ہوئے اس کی چیز بیچ دی جائے اور اسے نہ دی جائے۔ یوں سمجھئے کہ وہ بیع کالعدم ہوگئی کیونکہ ابھی کوئی ادائیگی نہیں ہوئی، لہٰذا چیز اصل مالک کو واپس مل گئی۔