سنن النسائي - حدیث 4674

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ ضِرَابِ الْجَمَلِ صحيح أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ حَجَّاجٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ: سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ ضِرَابِ الْجَمَلِ، وَعَنْ بَيْعِ الْمَاءِ، وَبَيْعِ الْأَرْضِ لِلْحَرْثِ، يَبِيعُ الرَّجُلُ أَرْضَهُ وَمَاءَهُ، فَعَنْ ذَلِكَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4674

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل اونٹ کی جفتی کی بیع حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اونٹ کی جفتی، (زائد) پانی اور کاشت کاری کے لیے زمین کی فروخت سے منع فرمایا کہ ایک آدمی اپنی زمین اور اس کا پانی کسی کو بیچ دے۔ نبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
تشریح : فوائد ومسائل: (۱) ’’اونٹ کی جفتی کی بیع‘‘ سے مراد جفتی کا معاوضہ ہے کیونکہ یہ اس کا فطری تقاضا ہے، لہٰذا نہ اجرت جائز ہے اور نہ نر کو روکنا جائز ہے۔ ہاں، جفتی کے بعد کوئی شخص خوشی سے نر کے مالک کو کچھ دے دے تو اس کی گنجائش ہے۔ ایسی چیز بھی کود کھانے کی بجائے نر کے مصرف ہی میں لے آئے۔ بعض فقہاء کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے۔ (۲) ’’زمین کی فروخت‘‘ سے مراد بٹائی یا ٹھیکہ ہے۔ اس کی تفصیلی بحث پیچھے حدیث نمبر ۳۸۹۳ میں گزر چکی ہے۔ بٹائی اور ٹھیکے میں اگر کوئی ظالمانہ شرط نہ ہو تو ان میں کوئی حرج نہیں۔ فوائد ومسائل: (۱) ’’اونٹ کی جفتی کی بیع‘‘ سے مراد جفتی کا معاوضہ ہے کیونکہ یہ اس کا فطری تقاضا ہے، لہٰذا نہ اجرت جائز ہے اور نہ نر کو روکنا جائز ہے۔ ہاں، جفتی کے بعد کوئی شخص خوشی سے نر کے مالک کو کچھ دے دے تو اس کی گنجائش ہے۔ ایسی چیز بھی کود کھانے کی بجائے نر کے مصرف ہی میں لے آئے۔ بعض فقہاء کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے۔ (۲) ’’زمین کی فروخت‘‘ سے مراد بٹائی یا ٹھیکہ ہے۔ اس کی تفصیلی بحث پیچھے حدیث نمبر ۳۸۹۳ میں گزر چکی ہے۔ بٹائی اور ٹھیکے میں اگر کوئی ظالمانہ شرط نہ ہو تو ان میں کوئی حرج نہیں۔