سنن النسائي - حدیث 4668

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الْخَمْرِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ ابْنِ وَعْلَةَ الْمِصْرِيِّ أَنَّهُ: سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَمَّا يُعْصَرُ مِنَ الْعِنَبِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَهْدَى رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاوِيَةَ خَمْرٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ عَلِمْتَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَهَا؟»، فَسَارَّ، وَلَمْ أَفْهَمْ مَا سَارَّ كَمَا أَرَدْتُ، فَسَأَلْتُ إِنْسَانًا إِلَى جَنْبِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِمَ سَارَرْتَهُ»، قَالَ: أَمَرْتُهُ أَنْ يَبِيعَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الَّذِي حَرَّمَ شُرْبَهَا، حَرَّمَ بَيْعَهَا»، فَفَتَحَ الْمَزَادَتَيْنِ حَتَّى ذَهَبَ مَا فِيهِمَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4668

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل شراب بیچنا حضرت ابن وعلہ مصری سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے انگور کے نچوڑے ہوئے جوس کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آدمی نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں اونٹ پر لدی ہوئی شراب کے دو مشکیزے بطور تحفہ پیش کیے۔ نبی اکرمﷺ نے اسے فرمایا: ’’تجھے علم نہیں کہ اللہ عزو جل نے شراب حرام فرما دی ہے؟‘‘ اس سے آستہ سے کچھ کہا اور جو کچھ اس نے کہا، اسے میں اس طرح نہیں سمجھ سکا جس طرح میں چاہتا تھا، لہٰذا میں نے (اس کی بابت حاضرین میں سے کسی سے) نبی اکرمﷺ نے اس پوچھا: ’’تو نے آہستہ سے اس کو کیا کہا ہے؟‘‘ اس نے کہا: میں اسے شراب فروخت کرنے کہا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جس ذات نے شراب کو حرام قرار دیا ہے، اس نے اس کو بیچنا بھی حرام کیا ہے۔‘‘ اس شخص نے دونوں مشکیزوں کے منہ کھول دیے حتی کہ جو کچھ شراب اس میں تھی بہہ گئی۔
تشریح : 1۔ شراب کی خرید و فروخت شرعی طور پر نا جائش اور حرام ہے۔ اس بات پر مات مسلمہ کا اجماع ہے۔ معلوم ہوا رسول اللہﷺ کی خدمت میں جو اس نے تحفتاً شراب پیش کی تھی، وہ سابقہ اباحت کی بنا پر ہی تھی۔اسے اس کی حرمت کا علم نہیں تھا اسی لیے آپ ﷺ نے اس کا مئواخذہ نہیں فرمایا۔ معلوم ہوا جو انسان کسی حرام کا ارتکاب کرے یا حرام چیز کو حلال سمجھتا ہو، اور اس حوالے سے اسے واقعی شرعی حکم معلوم نہ ہو تو اسے باخبر کرنا ضروری ہو گا۔ ایسی معصیت اور گناہ کے ارتکاب پر وہ قابل عتاب و عقاب بھی نہیں ہو گا۔ یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے اس بعض رازوں کی بابت پوچھ سکتا ہے۔ بعد ازاں اگر ان رازوں کو پوشیدہ رکھنا ضروری ہو تو پوشیدہ رکھے ورنہ انھین ذکر اور ظاہر بھی کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب ہے کہ انگور کا جوس شراب بنانے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا کوئی اور مصرف نہیں، لہٰذا انگور کا جوس نکالنا اور شراب بنانے والوں کو بیچنا منع ہے، البتہ اگر وہ جوس کسی حلال مصرف میں استعمال ہو سکے تو اسے بنانا اور بیچنا جائز ہے بشر طیکہ یقین ہو کہ اس سے شراب نہیں بنائی جائے گی۔ شریعت کا یہ اصول ہے کہ جو چیز حرام ہے، اس کا کاروبار، خرید فروخت ، لین دین ہر چیز منع ہے، مثلاً: شراب، مردار، بت، خنز وغیرہ، البتہ جو چیز کسی پر حرام ہے، کسی کے لیے حلا تو اس کا کاروبار، خرید و فروخت، لین دین سب جائز ہے حتی کہ جس شخص پر حرام ہے، وہ بھی اس کا لین دین کر سکتا ہے، جیسے سونا، ریشم وغیرہ۔ یہ مردوں کے لیے پہننا حرام ہے، رکھنا حرام نہیں، لہٰذا ان کا کاروبار اور لین مرد بھی کر سکتے ہیں۔ اس کا تحفہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ 1۔ شراب کی خرید و فروخت شرعی طور پر نا جائش اور حرام ہے۔ اس بات پر مات مسلمہ کا اجماع ہے۔ معلوم ہوا رسول اللہﷺ کی خدمت میں جو اس نے تحفتاً شراب پیش کی تھی، وہ سابقہ اباحت کی بنا پر ہی تھی۔اسے اس کی حرمت کا علم نہیں تھا اسی لیے آپ ﷺ نے اس کا مئواخذہ نہیں فرمایا۔ معلوم ہوا جو انسان کسی حرام کا ارتکاب کرے یا حرام چیز کو حلال سمجھتا ہو، اور اس حوالے سے اسے واقعی شرعی حکم معلوم نہ ہو تو اسے باخبر کرنا ضروری ہو گا۔ ایسی معصیت اور گناہ کے ارتکاب پر وہ قابل عتاب و عقاب بھی نہیں ہو گا۔ یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے اس بعض رازوں کی بابت پوچھ سکتا ہے۔ بعد ازاں اگر ان رازوں کو پوشیدہ رکھنا ضروری ہو تو پوشیدہ رکھے ورنہ انھین ذکر اور ظاہر بھی کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب ہے کہ انگور کا جوس شراب بنانے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا کوئی اور مصرف نہیں، لہٰذا انگور کا جوس نکالنا اور شراب بنانے والوں کو بیچنا منع ہے، البتہ اگر وہ جوس کسی حلال مصرف میں استعمال ہو سکے تو اسے بنانا اور بیچنا جائز ہے بشر طیکہ یقین ہو کہ اس سے شراب نہیں بنائی جائے گی۔ شریعت کا یہ اصول ہے کہ جو چیز حرام ہے، اس کا کاروبار، خرید فروخت ، لین دین ہر چیز منع ہے، مثلاً: شراب، مردار، بت، خنز وغیرہ، البتہ جو چیز کسی پر حرام ہے، کسی کے لیے حلا تو اس کا کاروبار، خرید و فروخت، لین دین سب جائز ہے حتی کہ جس شخص پر حرام ہے، وہ بھی اس کا لین دین کر سکتا ہے، جیسے سونا، ریشم وغیرہ۔ یہ مردوں کے لیے پہننا حرام ہے، رکھنا حرام نہیں، لہٰذا ان کا کاروبار اور لین مرد بھی کر سکتے ہیں۔ اس کا تحفہ بھی دیا جا سکتا ہے۔