سنن النسائي - حدیث 4659

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الْمُكَاتَبِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ، فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ، وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي، فَعَلْتُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لِأَهْلِهَا، فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ فَلْتَفْعَلْ، وَيَكُونَ لَنَا وَلَاؤُكِ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ابْتَاعِي وَأَعْتِقِي، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ»، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَمَنِ اشْتَرَطَ شَيْئًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلَيْسَ لَهُ، وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4659

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل مکاتب غلام کو فروخت کرنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بریرہ عائشہ کے پاس آئی۔ وہ اپنی کتابت کے بارے میں ان سے کچھ مدد کی طلب گار تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے فرمایا: اپنے مالکوں کے پاس جا، اگر وہ راضی ہوں کہ میں تیری طرف سے کتابت کی پوری رقم یکمشت ادا کر دوں اور تو میری طرف سے آزاد ہو جائے تو میں تیار ہوں۔ بریرہ نے یہ بات اپنے مالکان سے ذکر کی تو انھوں نے انکار کر دیا۔ اور کہنے لگے: اگر وہ تجھے آزاد کر کے ثواب حاصل کرنا چاہتی ہیں تو بڑی خوشی سے کرین لیکن ولا کا حق ہمارا ہو گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’خرید کر آزاد کر دے۔ ولا کا حق اسی کا ہے جو آزاد کرے۔‘‘ پھر رسول اللہﷺ نے (خطبے میں) فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ کی رو سے جائز نہیں۔ جو شخص بھی ایسی شرط لگاتا ہے، جو کتاب اللہ کی رو سے جائز نہیں، وہ شرط اس کے حق میں نہیں مانی جائے گی، خواہ سو دفعہ شرط لگا لے۔ اللہ تعالیٰ کی نافذ کردہ شرط (حکم) زیادہ معتبر اور منصبوط ہے۔‘‘
تشریح : 1۔ یہ روایت اور اس پر بحث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث: ۳۴۸۱) یہاں بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مکاتب غلام بیچا جا سکتا ہے؟ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیںجس سے اس کا مالک طے کر لے کہ تو اتنی رقم اتنی قسطوں میں (یا یکمشت) اتنے عرصے تک ادا کر دے تو تجھے آزادی مل جائے گی۔ ظاہر ہے یہ ایک معاہدہ ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا الا یہ کہ وہ غلام راضی ہو جسے اس معاہدے کا مفاد ہے۔ اور واضح بات ہے کہ وہ تبھی راضی ہو گا اگر اسے فوری آزادی کا یقین دلا دیا جائے۔ ایسی صورت میں جب معاہدے سے بڑھ کر غلام کو مفاد حاصل ہو رہا ہو اور دونوں فریق راضی ہوں تو اسے فوری آزادی کے لیے بیچنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ مندرجہ بالا روایات میں ذکر ہے۔ ہاں، مالکان اپنے مفاد کی خاطر اس کی مرضی کے بغیر اسے کسی دوسرے کو نہیں بیچ سکتے کیونکہ یہ غدر اور وعدہ خلافی ہے جس میں حکومت مدا خلت کر سکتی ہے۔ اس روایت کے مفصل فوائد و مسائل کے لیے ملا حظہ فرما ئیں فوائد و مسائل، حدیث: ۴۶۴۶ 1۔ یہ روایت اور اس پر بحث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث: ۳۴۸۱) یہاں بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مکاتب غلام بیچا جا سکتا ہے؟ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیںجس سے اس کا مالک طے کر لے کہ تو اتنی رقم اتنی قسطوں میں (یا یکمشت) اتنے عرصے تک ادا کر دے تو تجھے آزادی مل جائے گی۔ ظاہر ہے یہ ایک معاہدہ ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا الا یہ کہ وہ غلام راضی ہو جسے اس معاہدے کا مفاد ہے۔ اور واضح بات ہے کہ وہ تبھی راضی ہو گا اگر اسے فوری آزادی کا یقین دلا دیا جائے۔ ایسی صورت میں جب معاہدے سے بڑھ کر غلام کو مفاد حاصل ہو رہا ہو اور دونوں فریق راضی ہوں تو اسے فوری آزادی کے لیے بیچنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ مندرجہ بالا روایات میں ذکر ہے۔ ہاں، مالکان اپنے مفاد کی خاطر اس کی مرضی کے بغیر اسے کسی دوسرے کو نہیں بیچ سکتے کیونکہ یہ غدر اور وعدہ خلافی ہے جس میں حکومت مدا خلت کر سکتی ہے۔ اس روایت کے مفصل فوائد و مسائل کے لیے ملا حظہ فرما ئیں فوائد و مسائل، حدیث: ۴۶۴۶