سنن النسائي - حدیث 4651

كِتَابُ الْبُيُوعِ التَّسْهِيلُ فِي تَرْكِ الْإِشْهَادِ عَلَى الْبَيْعِ صحيح أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ مَرْوَانَ بْنِ الْهَيْثَمِ بْنِ عِمْرَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ حَمْزَةَ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، أَنَّ الزُّهْرِيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ، أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ، وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِيٍّ، وَاسْتَتْبَعَهُ لِيَقْبِضَ ثَمَنَ فَرَسِهِ، فَأَسْرَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِيُّ، وَطَفِقَ الرِّجَالُ يَتَعَرَّضُونَ لِلْأَعْرَابِيِّ، فَيَسُومُونَهُ بِالْفَرَسِ، وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَهُ حَتَّى زَادَ بَعْضُهُمْ فِي السَّوْمِ عَلَى مَا ابْتَاعَهُ بِهِ مِنْهُ، فَنَادَى الْأَعْرَابِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعًا هَذَا الْفَرَسَ وَإِلَّا بِعْتُهُ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ نِدَاءَهُ، فَقَالَ: «أَلَيْسَ قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ؟»، قَالَ: لَا وَاللَّهِ، مَا بِعْتُكَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ»، فَطَفِقَ النَّاسُ يَلُوذُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالْأَعْرَابِيِّ، وَهُمَا يَتَرَاجَعَانِ، وَطَفِقَ الْأَعْرَابِيُّ يَقُولُ: هَلُمَّ شَاهِدًا يَشْهَدُ أَنِّي، قَدْ بِعْتُكَهُ، قَالَ خُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بِعْتَهُ، قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خُزَيْمَةَ فَقَالَ: «لِمَ تَشْهَدُ؟»، قَالَ: بِتَصْدِيقِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4651

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل بیع کے وقت گواہ نہ بنائے جائیں تو اس کی گنجائش ہے حضرت عمارہ بن خزیمہ کے چچا محترم سے روایتک ہے، اور وہ نبی اکرمﷺ کے صحابہ تھے، کہ نبی اکرمﷺ نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خرید اور آپ اسے اپنے ساتھ لے گئے تا کہ وہ اپنے گھوڑے کی قیمت وصول کرے۔ نبی اکرمﷺ ذرا تیز چل رہے تھے جبکہ وہ اعرابی آہستہ آہستہ آ رہا تھا۔ لوگ اس اعرابی کو روک کر اس سے گھوڑے کا سودا کرنے لگے۔ ان کو یہ علم نہیں تھا کہ نبی اکرمﷺ اس گھوڑے کو خرید چکے ہیں، حتی کہ کسی نے اس بھاؤ سے زیادہ بھاؤ لگا دیا جس پر آپ کا سودا طے ہوا تھا۔ اعرابی نے نبی اکرمﷺ کو بلندد آواز سے پکار کر کہا: اگر آپ نے یہ گھوڑا خریدنا ہے تو خرید لیں ورنہ میں بیچنے لگا ہوں۔ آپ نے اس ی آواز سنی تو رک گئے اور فرمایا: ’’میں تجھ سے خرید نہیں چکا؟‘‘ اس نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! میں نے تو آپ کو یہ نہیں بیچا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’میں تو اسے تجھ سے خرید چکا ہوں۔‘‘ لوگ نبی اکرمﷺ اور اعرابی کے ارد گرد جمع ہونے لگے۔ وہ دونوں آپس میں تکرار کر رہے تھے۔ اعرابی کہنے لگا: کوئی گھواہ پیش کریں جو گواہی دے کہ میں نے آپ کو یہ گھوڑا بیچا ہے۔ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے یہ گھوڑا آپ کو بیچا ہے۔ (خیر! وہ معاملہ طے ہو گیا، بعد میں )آپ حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’تم کس طرح گواہی دیتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی تصدیق کی بنا پر۔ تب رسول اللہﷺ نے حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گواہی دو آدمیوں کے برابر قرار دے دی۔
تشریح : فوائد و مسائل: امام صاحب رحمہ اللہ کامقصد یہ ہے کہ سودے پر یا سودا کرتے وقت گواہ بھی بنائے جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ اس استد الال پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’اور جب تم با ہم خریدہ فروخت کر تو گواہ بنالو۔‘‘ اس جگہ لفظ فرمایا گیا ہے اور یہ امر کا صیغہ ہے جبکہ امر و جواب یہ ہے کہ جب قرینہ صارفہ (امر و جوب سے استحباب وغیرہ کی طرف پھیرنے والی دلیل ) آ جائے تو پھر وجوب ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اعرابی اور اور نبی اکرمﷺ کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ گواہ بنانا مستحب ہے، ضروری نہیں، تاہم ادھار سودا ہو یا قرض ہو یا سودے وغیرہ میں نسیان و تنازع کا خدشہ ہو تو گواہ بنانا، تحریر تیار کرنا مئوکد چیز ہے۔ سیدنا خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت و منقبت ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان کی گواہی کو دو مسلمان مردوں کو گواہی کے برابر قرار دیا۔ یہ حدیث مبارکہ رسول اللہﷺ کی کسرنفسی اور انتہائی تواضع پر واضح دلیل ہے کہ آپ اپنے دینوی کام کاج بذات خود سر انجام دیتے تھے۔ رسول اللہﷺ کی اس تواضع میں امت کے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ اپنے کام خود کرنا ہی عظمت اور بڑائی ہے نہ کہ دوسروں سے کرانا اور ان پر انحصار کرنا۔ فوائد و مسائل: امام صاحب رحمہ اللہ کامقصد یہ ہے کہ سودے پر یا سودا کرتے وقت گواہ بھی بنائے جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ اس استد الال پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’اور جب تم با ہم خریدہ فروخت کر تو گواہ بنالو۔‘‘ اس جگہ لفظ فرمایا گیا ہے اور یہ امر کا صیغہ ہے جبکہ امر و جواب یہ ہے کہ جب قرینہ صارفہ (امر و جوب سے استحباب وغیرہ کی طرف پھیرنے والی دلیل ) آ جائے تو پھر وجوب ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اعرابی اور اور نبی اکرمﷺ کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ گواہ بنانا مستحب ہے، ضروری نہیں، تاہم ادھار سودا ہو یا قرض ہو یا سودے وغیرہ میں نسیان و تنازع کا خدشہ ہو تو گواہ بنانا، تحریر تیار کرنا مئوکد چیز ہے۔ سیدنا خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت و منقبت ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان کی گواہی کو دو مسلمان مردوں کو گواہی کے برابر قرار دیا۔ یہ حدیث مبارکہ رسول اللہﷺ کی کسرنفسی اور انتہائی تواضع پر واضح دلیل ہے کہ آپ اپنے دینوی کام کاج بذات خود سر انجام دیتے تھے۔ رسول اللہﷺ کی اس تواضع میں امت کے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ اپنے کام خود کرنا ہی عظمت اور بڑائی ہے نہ کہ دوسروں سے کرانا اور ان پر انحصار کرنا۔