سنن النسائي - حدیث 465

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَاب الْحُكْمِ فِي تَارِكِ الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ إِلَّا تَرْكُ الصَّلَاةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 465

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل نماز چھوڑنے والے کا حکم حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندے اور کفر کے درمیان صرف نماز چھورنے کا فرق ہے۔‘‘
تشریح : (۱)’’مسلمان اور کافر میں امتیاز نماز سے ہے۔‘‘ کیونکہ ارکانِ اسلام میں سے یہی ایک ایسا رکن ہے جس سے مسلم کی پہچان ہوسکتی ہے۔ شہادتین کی ادائیگی تو کبھی کبھار ہوتی ہے، نیز وہ نظر آنے والی چیز نہیں۔ تصدیق دل سے ہوتی ہے۔ روزہ بھی مخفی چیز ہے۔ زکاۃ کی ادائیگی صرف امیر لوگوں پر سال میں ایک دفعہ ہوتی ہے اور وہ علانیہ بھی نہیں ہوتی۔ حج زندگی میں ایک بار ہے، وہ بھی صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے، لہٰذا نماز ہی ایک ایسا رکن ہے جو ہر غریب و امیر، مردوزن، بوڑھے، جوان، تندرست اور بیمار پر دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔ اور یہ نظر آنے والی چیز ہے۔ علانیہ اذان و جماعت سے ادا ہوتی ہے، اس لیے اس سے بڑھ کر مسلمان کے لیے امتیاز کیا ہوسکتا ہے؟ (۲)’’جس نے اسے چھوڑ دیا، کفر کیا۔‘‘ کیونکہ جو شخص کبھی بھی نماز نہیں پڑھتا اس نے مطلقاً نماز کو چھوڑ رکھا ہے۔ بظاہر کافر اور اس میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا، یعنی دیکھنے میں کافروں جیسا ہے۔ ویسے بھی نماز کا ترک کافروں کا کام ہے۔ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس نے کفر کے کام کا ارتکاب کیا، البتہ اس میں چونکہ اسلام کے کام بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً: شہادتین کا اقرار اور تصدیق وغیرہ، لہٰذا وہ صریح کافر تو نہیں مگر دائرۂ اسلام کے تحت کافر ہے۔ اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے [کفر دون کفر] کہا ہے ۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الایمان، باب کفران العشیر وکفر دون کفر، رقم الباب:۲۱) یعنی بڑے کفر سے کم درجے کا کفر جس سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہ ہوگا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ظاہر الفاظ کے پیش نظر اسے صریح کافر کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ (۳)’’صرف نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔‘‘ کیونکہ ترک صلاۃ سے مسلمان کا امتیاز ختم ہوگیا، لہٰذا اس کا تعلق کفر سے جڑ گیا۔ (۱)’’مسلمان اور کافر میں امتیاز نماز سے ہے۔‘‘ کیونکہ ارکانِ اسلام میں سے یہی ایک ایسا رکن ہے جس سے مسلم کی پہچان ہوسکتی ہے۔ شہادتین کی ادائیگی تو کبھی کبھار ہوتی ہے، نیز وہ نظر آنے والی چیز نہیں۔ تصدیق دل سے ہوتی ہے۔ روزہ بھی مخفی چیز ہے۔ زکاۃ کی ادائیگی صرف امیر لوگوں پر سال میں ایک دفعہ ہوتی ہے اور وہ علانیہ بھی نہیں ہوتی۔ حج زندگی میں ایک بار ہے، وہ بھی صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے، لہٰذا نماز ہی ایک ایسا رکن ہے جو ہر غریب و امیر، مردوزن، بوڑھے، جوان، تندرست اور بیمار پر دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے۔ اور یہ نظر آنے والی چیز ہے۔ علانیہ اذان و جماعت سے ادا ہوتی ہے، اس لیے اس سے بڑھ کر مسلمان کے لیے امتیاز کیا ہوسکتا ہے؟ (۲)’’جس نے اسے چھوڑ دیا، کفر کیا۔‘‘ کیونکہ جو شخص کبھی بھی نماز نہیں پڑھتا اس نے مطلقاً نماز کو چھوڑ رکھا ہے۔ بظاہر کافر اور اس میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا، یعنی دیکھنے میں کافروں جیسا ہے۔ ویسے بھی نماز کا ترک کافروں کا کام ہے۔ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس نے کفر کے کام کا ارتکاب کیا، البتہ اس میں چونکہ اسلام کے کام بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً: شہادتین کا اقرار اور تصدیق وغیرہ، لہٰذا وہ صریح کافر تو نہیں مگر دائرۂ اسلام کے تحت کافر ہے۔ اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے [کفر دون کفر] کہا ہے ۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الایمان، باب کفران العشیر وکفر دون کفر، رقم الباب:۲۱) یعنی بڑے کفر سے کم درجے کا کفر جس سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہ ہوگا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ظاہر الفاظ کے پیش نظر اسے صریح کافر کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ (۳)’’صرف نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔‘‘ کیونکہ ترک صلاۃ سے مسلمان کا امتیاز ختم ہوگیا، لہٰذا اس کا تعلق کفر سے جڑ گیا۔