سنن النسائي - حدیث 4646

كِتَابُ الْبُيُوعِ الْبَيْعُ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ الْفَاسِدُ، فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَيَبْطُلُ الشَّرْطُ صحيح دون قوله : " و كان زوجها حرا " فإنه شاذ ، و المحفوظ أنه كان عبدا أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلَاءَهَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ»، قَالَتْ: فَأَعْتَقْتُهَا، قَالَتْ: فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4646

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل اگر بیع میں کوئی فاسد شرط لگالی جائے تو بیع صحیح ہوگی، البتہ وہ شرط غیر معتبر ہوگی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے بریرہ کو (اس کے مالکان سے) خریدا تو اس کے مالکان نے اس کے ولا کی اپنے لیے شرط لگالی۔ میں نے یہ بات نبی اکرمﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ’’اسے آزاد کر دے۔ ولا اسی کی ہوتی ہے جو پیسے دیتا (غلام کو خریدتا) ہے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے اسے آزاد کر دیا تو رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور اسے اپنے خاوند کے (پاس رہنے یا نہ رہنے کے) بارے میں اختیار دیا۔ اس نے خاوند سے اپنی جدائی کو پسند کیا۔ اس کا خاوند آزاد تھا۔
تشریح : فوائد و مسائل:1۔ اگر کوئی شخص بیع کرتے وقت ایسی شرط لگاتا ہے جو شرعاً درست نہ ہو تو اس صورت میں بیع کرنا درست ہو گا جبکہ وہ شرط جو اخلاف شریعت ہو، باطل ہو گی، لہٰذا اس شرط کو کا لعدم سمجھا جائے گا اور اس کا کوئی لحاظ نہیں ہو گا جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہﷺ نے پوری وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور مختلف روایت میں مختلف الفاظ مذکور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے والے راویوں نے کہیں تفصیلی روایت بیان کی ہے اور کہیں اختصار سے کام لیا ہے اور یہ سب کچھ ضرورت کے مطابق کیا گیا ہے۔ روائہ حدیث کے اس قسم کے تصرف کو تمام محدثین عظام نے من و عن قبول کیا ہے اور حق بھی یہی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احادیث سے مختلف احکام و مسائل اخذ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ (لہٰذا یہاں بھی مذکور و حدیث سے علماء نے متعدد مسائل استنباط کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔ مکاتبت جازء ہے۔ مکاتبت اس عہد و پیمان کو کہا جاتا ہے جو مالک اور اس کے غلام یا لونڈی کے درمیان، متعین رقم یک مشت دینا اور اس کی قسطیں کرنا، دونوں طرح جائز ہے۔ لونڈی یا غلام کی مکاتبت کی رقم دوسرا شخص دے سکتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا شخص مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور لونڈی و غلام کو آزاد کر دے تو وہ آزاد ہو جائیں گے، البتہ اس صورت میں اس لونڈی یا غلام کے دار آزاد رکے مابین، آزاد کرنے والا ہو گا نہ کہ پہلا مالک۔ اس ربط و تعلق کو کہتے ہیں جو آزاد کرنے والے اور آزاد کردہ کے مابین ، آزاد کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ تعلق نہ تو بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تعلق بالکل اسی طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ باپ اور بیٹے کے درمیان والا تعلق ہوتا ہے جو نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلق کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آزاد کردہ شخص کے عصبہ اور ذوی الفروض (جن کا حصہ میراث مقر ہے) نہ ہوں تو اس کی تمام جائداد کا مالک آزاد کرنے والا ہوتا ہے۔ اگر کوئی لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کے لیے دستِ سوال دراز کرے تو یہ سوال کرنا درست ہے اور سلسلے میں اس کی مدد بھی کرنی چاہیے، نیز اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مستحق آدمی کا اپنی جائز ضرورت یا ضروریات پوری کرنے کی خاطر سوال کرنا درست ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے باہمی مشاورت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے خصوصاً میاں بیوی کی باہمی مشاورت کا اثبات ہوتا ہے، نیز اگر بیوی خاوند سے کسی مسئلے میں مشورہ طلب کرے تو کے لیے ضروری ہے کہ اسے درست مشورہ دے۔ اگر لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا نہ کر سکتے ہوں تو انھیں بیچا جا سکتا ہے۔ اس ی دلیل رسول اللہﷺ کے الفاظ مبارک ہیں، یعنی اسے خریدو اور آزاد کر دو۔ دیکھیے: اگر میاں بیوی دونوں غلام ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ دونوں اکٹھے ہی بیچے جائیں۔ اس حدیث بریرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی یا غلام کے پاس مال وغیرہ نہ ہو، اس مکاتبت کرنا، یعنی اسے مکاتب بنایا درست ہے، خواہ اس کے پاس مال کمانے کے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ مکاتب لونڈی یا غلام اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گے جب تک مکاتبت کے بابت طے شدہ ساری رقم ادا نہ کردیں۔ جب تک ان کے ذمے ایک در اہم بھی باقی ہے وہ غلام ہی رہیں گے اوسی اصل کے مطابق ان پر دیگر احکام جاری ہوں گے، یعنی نکاح، طلاق اور حدود وغیرہ کے احکام غلاموں والے ہی ان پر لاگو ہوں گے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ظابت ہوتا ہے کہ شادی شدہ لونڈی کی فروخت اور آزادی نہ طلاق ہو گی اور نہ فسخ نکاح ہی، اس لیے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہ کو بعد ازاں اختیار دیا گیا تھا کہ چاہے تو وہ اپنے خاوند مغیث کے نکاح میں رہے اور چاہے تو اس سے الگ ہوجائے۔ اس اختیار کے بعد انھوں نے اپنے خاوند سے علیحدگی کو اختیار کیا۔ لونڈی سے اس کا مالک جماع کر سکتا ہے، تا ہم اگر وہ کسی کی بیوی ہو تو پھر جائز نہیں، نیز لونڈی کو محض بیچ دینے سے، اس کے ساتھ جماع کرنا حلال نہ ہو گا۔ سیدہ بریرہ کو خاوند کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دینا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ابھی تک خاوند کے ساتھ ان کا تعلق باقی تھا۔ اگر کوئی تعلق باقی نہ رہتا تو پھر اختیار کس چیز کا تھا؟ اگر بوقت سوال، سائل مجبور نہیں ہے تو سوال کر سکتا ہے، یعنی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وقت ضرورت کے آنے سے پہلے بھی اس ضرورت کی بابت سوال ہو سکتا ہے۔ شادی شدہ عورت سے مدد اور مالی تعاون مانگا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی مکاتبت کی بابت مالء تعاون مانگا تھااور انھوں نے اس کی درخواست قبول فرمالء تھی اور بریرہ کو خرید کر اسے آزاد کر دیا تھا۔ شادی شدہ خاتون، اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کر سکتی ہے بشر طیکہ وہ تصرف کسی جائز ضرورت کی خاطر ہو۔ طلب اجر کی خاطر مال خرچ کرنا بلکہ زائد از ضرورت خرچ کرنا درست ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی مکاتبت کی ساری رقم جو نو قسطوں کی نو سال میں ادائیگی کی صورت میں طے ہوئے تھی، یکمشت ادا کر دی اور انھیں اسی وقت آزاد کر دیا۔ غلام اور لونڈی کے لیے اپنی آزادی کی خاطر محنت اور کوشش کرنا جائز ہے، خواہ اس مقصد کے لیے اسے کسی ایسے شخص سے سوال کرنا پڑے جو اسے خرید کر آزاد بھی کر دے۔ ایسا کرنے سے اس مالک کا اگر چہ نقصان بھی ہوتا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ اس لیے کہ شارع ﷺ نے غلام کی آزادی کو سراہا اور اس عظیم نیکی کا شوق بھی دلایا ہے، اس لیے اس کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص لونڈی یا غلام بیچے لیکن یہ شرط لگالے کہ یہ میری خدمت کرتا رہے گا تو یہ شرط باطل ہو گی۔ اگر مکاتب اپنی قسط کی رقم اس مال سے ادا کرے جو اس پر صدقہ کیا گیا ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، مالک کو ایسی رقم قبول کرنے سے تامل نہیں کرنا چاہیے اگر چہ وقت مقررہ سے قبل ہی وہ رقم کی ادائیگی کر رہا ہو۔ مکاتب دراصل غلام ہی ہوتا ہے جب تک کہ وہ تمام رقم ادا نہ کر دے اور غلام پر صدقہ کر نا درست ہے۔ جب صدقہ اصل محل تک پہنچ جائے تو وہ مالدار شخص کے استعمال کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالک ایسی شرط لگا رہے ہیں جو شرعاً درست نہیں تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کسی کا نام لیے بغیر مسئلے کی وضاحت فرمائی اور ایسی ہر شرط کو باطل قرار دیا جو قرآن و حدیث کے منافی ہو۔ اس سے معلوم ہوا جب کوئی اہم شرعی معاملہ در پیش ہو تو کھڑے ہو کر خطبہ دینا مشروع ہے۔ جس شخص سے کوئی غیر شرعی اور منکر کام سر زد ہو تو اس صورت میں غلط کام کرنے والے شخص کا نام لیے بغیر ہی اس کی اصلاح کی جائے۔ اس طرح کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے نہ کہ کسی کو شرمندہ اور رسوا کرنا۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی عورتیں کسی شخص کے گھر میں آ سکتی ہیں، خواہ گھر کا مالک مرد اپنے گھر میں موجود ہو یا نہ ہو۔ رسول اللہﷺ کے لیے صدقہ مطلقاً حرام ہے۔ آپ پر نہ صدقہ کیا جا سکتا ہے اور نہ آپ صدقے کا مال کھا ہی سکتے ہیں۔ ہاں، اگر صدقہ کسی مستحق پر کر دیا جائے اور وہ نبیﷺ کو بطور ہد یہ پیش کر دے تو یہ درست ہے۔ غنی مالدار شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ محتاج و فقیر کا دیا ہوا ہد یہ قبول کر لے، نیز معلوم ہوا کہ صدقے اور ہدیے کا حکم الگ الگ ہے۔ اگر کسی شخص کو اپنے ہاں کسی شخص کے کھانے سے خوشی ہو تو وہ شخص بلا اجازت بھی اس کے گھر کا حکم واضح ہو تا ہو یا اس سے کوئی شبہ رفع ہوتا ہو اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی پر تھوڑی چیز صدقہ کی جائے تو اس کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خوش کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب عمل ہے۔ یہ حدیث مبارکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے حسن ادب پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کی سفارش واضح انداز میں رد نہیں کی بلکہ یہ کہا ہے کہ مجھے اپنے خاوند مغث کی حاجت نہیں۔ سفارش کرنے والے کو یقینا اس کی جائز سفارش کرنے کا اجرو ثواب مل جاتا ہے، خواہ اس کی سفارش قبول ہو یا رد کر دی جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرطِ محبت انسان کے لیے بڑی آزمائش کا سبب بنتی ہے۔ بسا اوقات اسے بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مدینے کی گلیوں میں ان کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے،ؤ۔ دو باہم نفرت کرنے والوں کے مابین صلح صفائی کرانا مستحب ہے، خواہ وہ دونوں میاں بیوی ہی ہوں۔ میاں بیوی ہونے کی صورت میں یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے تاکہ بچے والدین کی باہمی نفرت و اختلاف کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ کو حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت سفارش کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا: وہ تیرے بچے کا باپ ہے۔‘‘ بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف کرنا بھی جائز ہے۔ شوہر دیدہ خاتون کو مجبور نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ آزاد کردہ ہی کیوں نہ ہو۔ نکاح فسخ ہونے کی صورت میں رجوع نہیں ہو سکتا لیکن نیا نکاح ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے نفرت کرتی ہو تو اس کے س پرست کو چاہیے کہ وہ اس عورت کو خاوند کے ساتھ رہنے پر مجبور نہ کرے اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو کہ عورت اپنے خاوندسے محبت کرتی ہو تو سر پرست اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان جدائی اور تفریق نہ ڈالے۔ شارحینِ حدیث نے اس حدیث مبارکہ سے کم و بیش ڈیڑھ سو (۱۵۰) فوائد و مسائل کا استنباط کیا ہے لیکن ہم نے بغرض اختصار مذکورہ بالا فوائد و مسائل ہی پر اکتفا کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملا حظہ فرمایے: اس روایت پر مزید بحث کے لیے دیکھیے، احادیث ۳۴۷۷تا۳۴۸۴۔ فوائد و مسائل:1۔ اگر کوئی شخص بیع کرتے وقت ایسی شرط لگاتا ہے جو شرعاً درست نہ ہو تو اس صورت میں بیع کرنا درست ہو گا جبکہ وہ شرط جو اخلاف شریعت ہو، باطل ہو گی، لہٰذا اس شرط کو کا لعدم سمجھا جائے گا اور اس کا کوئی لحاظ نہیں ہو گا جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہﷺ نے پوری وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور مختلف روایت میں مختلف الفاظ مذکور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے والے راویوں نے کہیں تفصیلی روایت بیان کی ہے اور کہیں اختصار سے کام لیا ہے اور یہ سب کچھ ضرورت کے مطابق کیا گیا ہے۔ روائہ حدیث کے اس قسم کے تصرف کو تمام محدثین عظام نے من و عن قبول کیا ہے اور حق بھی یہی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احادیث سے مختلف احکام و مسائل اخذ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ (لہٰذا یہاں بھی مذکور و حدیث سے علماء نے متعدد مسائل استنباط کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔ مکاتبت جازء ہے۔ مکاتبت اس عہد و پیمان کو کہا جاتا ہے جو مالک اور اس کے غلام یا لونڈی کے درمیان، متعین رقم یک مشت دینا اور اس کی قسطیں کرنا، دونوں طرح جائز ہے۔ لونڈی یا غلام کی مکاتبت کی رقم دوسرا شخص دے سکتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا شخص مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا کر دے اور لونڈی و غلام کو آزاد کر دے تو وہ آزاد ہو جائیں گے، البتہ اس صورت میں اس لونڈی یا غلام کے دار آزاد رکے مابین، آزاد کرنے والا ہو گا نہ کہ پہلا مالک۔ اس ربط و تعلق کو کہتے ہیں جو آزاد کرنے والے اور آزاد کردہ کے مابین ، آزاد کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ تعلق نہ تو بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تعلق بالکل اسی طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ باپ اور بیٹے کے درمیان والا تعلق ہوتا ہے جو نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلق کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آزاد کردہ شخص کے عصبہ اور ذوی الفروض (جن کا حصہ میراث مقر ہے) نہ ہوں تو اس کی تمام جائداد کا مالک آزاد کرنے والا ہوتا ہے۔ اگر کوئی لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی رقم کی ادائیگی کے لیے دستِ سوال دراز کرے تو یہ سوال کرنا درست ہے اور سلسلے میں اس کی مدد بھی کرنی چاہیے، نیز اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مستحق آدمی کا اپنی جائز ضرورت یا ضروریات پوری کرنے کی خاطر سوال کرنا درست ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے باہمی مشاورت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے خصوصاً میاں بیوی کی باہمی مشاورت کا اثبات ہوتا ہے، نیز اگر بیوی خاوند سے کسی مسئلے میں مشورہ طلب کرے تو کے لیے ضروری ہے کہ اسے درست مشورہ دے۔ اگر لونڈی یا غلام اپنی مکاتبت کی طے شدہ رقم ادا نہ کر سکتے ہوں تو انھیں بیچا جا سکتا ہے۔ اس ی دلیل رسول اللہﷺ کے الفاظ مبارک ہیں، یعنی اسے خریدو اور آزاد کر دو۔ دیکھیے: اگر میاں بیوی دونوں غلام ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ دونوں اکٹھے ہی بیچے جائیں۔ اس حدیث بریرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس لونڈی یا غلام کے پاس مال وغیرہ نہ ہو، اس مکاتبت کرنا، یعنی اسے مکاتب بنایا درست ہے، خواہ اس کے پاس مال کمانے کے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ مکاتب لونڈی یا غلام اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گے جب تک مکاتبت کے بابت طے شدہ ساری رقم ادا نہ کردیں۔ جب تک ان کے ذمے ایک در اہم بھی باقی ہے وہ غلام ہی رہیں گے اوسی اصل کے مطابق ان پر دیگر احکام جاری ہوں گے، یعنی نکاح، طلاق اور حدود وغیرہ کے احکام غلاموں والے ہی ان پر لاگو ہوں گے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ظابت ہوتا ہے کہ شادی شدہ لونڈی کی فروخت اور آزادی نہ طلاق ہو گی اور نہ فسخ نکاح ہی، اس لیے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہ کو بعد ازاں اختیار دیا گیا تھا کہ چاہے تو وہ اپنے خاوند مغیث کے نکاح میں رہے اور چاہے تو اس سے الگ ہوجائے۔ اس اختیار کے بعد انھوں نے اپنے خاوند سے علیحدگی کو اختیار کیا۔ لونڈی سے اس کا مالک جماع کر سکتا ہے، تا ہم اگر وہ کسی کی بیوی ہو تو پھر جائز نہیں، نیز لونڈی کو محض بیچ دینے سے، اس کے ساتھ جماع کرنا حلال نہ ہو گا۔ سیدہ بریرہ کو خاوند کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دینا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ابھی تک خاوند کے ساتھ ان کا تعلق باقی تھا۔ اگر کوئی تعلق باقی نہ رہتا تو پھر اختیار کس چیز کا تھا؟ اگر بوقت سوال، سائل مجبور نہیں ہے تو سوال کر سکتا ہے، یعنی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وقت ضرورت کے آنے سے پہلے بھی اس ضرورت کی بابت سوال ہو سکتا ہے۔ شادی شدہ عورت سے مدد اور مالی تعاون مانگا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنی مکاتبت کی بابت مالء تعاون مانگا تھااور انھوں نے اس کی درخواست قبول فرمالء تھی اور بریرہ کو خرید کر اسے آزاد کر دیا تھا۔ شادی شدہ خاتون، اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کر سکتی ہے بشر طیکہ وہ تصرف کسی جائز ضرورت کی خاطر ہو۔ طلب اجر کی خاطر مال خرچ کرنا بلکہ زائد از ضرورت خرچ کرنا درست ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی مکاتبت کی ساری رقم جو نو قسطوں کی نو سال میں ادائیگی کی صورت میں طے ہوئے تھی، یکمشت ادا کر دی اور انھیں اسی وقت آزاد کر دیا۔ غلام اور لونڈی کے لیے اپنی آزادی کی خاطر محنت اور کوشش کرنا جائز ہے، خواہ اس مقصد کے لیے اسے کسی ایسے شخص سے سوال کرنا پڑے جو اسے خرید کر آزاد بھی کر دے۔ ایسا کرنے سے اس مالک کا اگر چہ نقصان بھی ہوتا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ یہ اس لیے کہ شارع ﷺ نے غلام کی آزادی کو سراہا اور اس عظیم نیکی کا شوق بھی دلایا ہے، اس لیے اس کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص لونڈی یا غلام بیچے لیکن یہ شرط لگالے کہ یہ میری خدمت کرتا رہے گا تو یہ شرط باطل ہو گی۔ اگر مکاتب اپنی قسط کی رقم اس مال سے ادا کرے جو اس پر صدقہ کیا گیا ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، مالک کو ایسی رقم قبول کرنے سے تامل نہیں کرنا چاہیے اگر چہ وقت مقررہ سے قبل ہی وہ رقم کی ادائیگی کر رہا ہو۔ مکاتب دراصل غلام ہی ہوتا ہے جب تک کہ وہ تمام رقم ادا نہ کر دے اور غلام پر صدقہ کر نا درست ہے۔ جب صدقہ اصل محل تک پہنچ جائے تو وہ مالدار شخص کے استعمال کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالک ایسی شرط لگا رہے ہیں جو شرعاً درست نہیں تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کسی کا نام لیے بغیر مسئلے کی وضاحت فرمائی اور ایسی ہر شرط کو باطل قرار دیا جو قرآن و حدیث کے منافی ہو۔ اس سے معلوم ہوا جب کوئی اہم شرعی معاملہ در پیش ہو تو کھڑے ہو کر خطبہ دینا مشروع ہے۔ جس شخص سے کوئی غیر شرعی اور منکر کام سر زد ہو تو اس صورت میں غلط کام کرنے والے شخص کا نام لیے بغیر ہی اس کی اصلاح کی جائے۔ اس طرح کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے نہ کہ کسی کو شرمندہ اور رسوا کرنا۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی عورتیں کسی شخص کے گھر میں آ سکتی ہیں، خواہ گھر کا مالک مرد اپنے گھر میں موجود ہو یا نہ ہو۔ رسول اللہﷺ کے لیے صدقہ مطلقاً حرام ہے۔ آپ پر نہ صدقہ کیا جا سکتا ہے اور نہ آپ صدقے کا مال کھا ہی سکتے ہیں۔ ہاں، اگر صدقہ کسی مستحق پر کر دیا جائے اور وہ نبیﷺ کو بطور ہد یہ پیش کر دے تو یہ درست ہے۔ غنی مالدار شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ محتاج و فقیر کا دیا ہوا ہد یہ قبول کر لے، نیز معلوم ہوا کہ صدقے اور ہدیے کا حکم الگ الگ ہے۔ اگر کسی شخص کو اپنے ہاں کسی شخص کے کھانے سے خوشی ہو تو وہ شخص بلا اجازت بھی اس کے گھر کا حکم واضح ہو تا ہو یا اس سے کوئی شبہ رفع ہوتا ہو اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی پر تھوڑی چیز صدقہ کی جائے تو اس کو قبول کر لینا چاہیے۔ اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خوش کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب عمل ہے۔ یہ حدیث مبارکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے حسن ادب پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کی سفارش واضح انداز میں رد نہیں کی بلکہ یہ کہا ہے کہ مجھے اپنے خاوند مغث کی حاجت نہیں۔ سفارش کرنے والے کو یقینا اس کی جائز سفارش کرنے کا اجرو ثواب مل جاتا ہے، خواہ اس کی سفارش قبول ہو یا رد کر دی جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرطِ محبت انسان کے لیے بڑی آزمائش کا سبب بنتی ہے۔ بسا اوقات اسے بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مدینے کی گلیوں میں ان کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے،ؤ۔ دو باہم نفرت کرنے والوں کے مابین صلح صفائی کرانا مستحب ہے، خواہ وہ دونوں میاں بیوی ہی ہوں۔ میاں بیوی ہونے کی صورت میں یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے تاکہ بچے والدین کی باہمی نفرت و اختلاف کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ کو حضرت مغیث رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بابت سفارش کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا: وہ تیرے بچے کا باپ ہے۔‘‘ بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف کرنا بھی جائز ہے۔ شوہر دیدہ خاتون کو مجبور نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ آزاد کردہ ہی کیوں نہ ہو۔ نکاح فسخ ہونے کی صورت میں رجوع نہیں ہو سکتا لیکن نیا نکاح ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے نفرت کرتی ہو تو اس کے س پرست کو چاہیے کہ وہ اس عورت کو خاوند کے ساتھ رہنے پر مجبور نہ کرے اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو کہ عورت اپنے خاوندسے محبت کرتی ہو تو سر پرست اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان جدائی اور تفریق نہ ڈالے۔ شارحینِ حدیث نے اس حدیث مبارکہ سے کم و بیش ڈیڑھ سو (۱۵۰) فوائد و مسائل کا استنباط کیا ہے لیکن ہم نے بغرض اختصار مذکورہ بالا فوائد و مسائل ہی پر اکتفا کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملا حظہ فرمایے: اس روایت پر مزید بحث کے لیے دیکھیے، احادیث ۳۴۷۷تا۳۴۸۴۔