سنن النسائي - حدیث 4645

كِتَابُ الْبُيُوعِ الْبَيْعُ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ، فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَالشَّرْطُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كُنَّا نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ؟»، قُلْتُ: نَعَمْ، هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: «أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ»، قُلْتُ: نَعَمْ، هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: «أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ؟»، قُلْتُ: نَعَمْ، هُوَ لَكَ، قَالَ أَبُو نَضْرَةَ: «وَكَانَتْ كَلِمَةً يَقُولُهَا الْمُسْلِمُونَ، افْعَلْ كَذَا وَكَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4645

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل بیع میں کوئی شرط لگالی جائے تو بیع اور شرط دونوں درست ہوں گے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ چل رہے تھے۔ میں اپنے پانی ڈھونے والے اونٹ پر سوار تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کیا تو اپنا یہ اونٹ مجھے اتنے اتنے میں فروخت کرے گا؟ اللہ تعالیٰ تیری مغفرت فرمائے۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے نبی! وہ آپ کا ہی ہے۔ پھر فرمایا: ’’مجھے اتنے اتنے میں فروخت کرے گا؟ اللہ تعالیٰ تیری مغفرت فرمائے۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے نبی! یقینا یہ آپ کا ہی ہے۔ آپ نے پھر فرمایا: ’’تو یہ اونٹ مجھے اتنے میں فروخت کرے گا؟ اللہ تعالیٰ تجھے معاف فرمائے۔‘‘ میں کہا: جی ہاں۔ وہ آپ کا ہی ہے۔ راوی ابو نضرہ نے کہا کہ (اللہ تجھے معاف کرے) ایک کلمہ ہے جو مسلمان عموماً کہتے تھے۔ یو یہ کام کر لے، اللہ تجھے معاف کرے۔
تشریح : فوائد و مسائل:1۔ آپ کا بار بار فرمانا دراصل اس کو زیادہ دعا دینے کے لیے تھا اور شفقت کے طور پر بھی۔ یہ جملہ دعائیہ ہے۔ مسلمانوں کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص دوسرے کو کسی بات کا حکم دیتا یا اس سے کوئی معاملہ کرتا تو اس وقت یہ دعائیہ جملے بولا کرتا تھا۔ یہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے فضیلت کی بات ہے۔ ایک ہی واقعہ اسانید کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام تفصیلات و جزئیات اوضح ہو جاتی ہیں اور لفظی فرق کا پتا بھی چل جاتا ہے۔ جب روایات میں لفظی فرق ہو تو کسی ایک فریق کا لفظ سے استد لال کرنا کمزور ہو جاتا ہے، جیسے اس حدیث میں اختلاف ہے کہ مدینہ منورہ تک استد لال کی شرط حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیع میں لگائی تھی یا رسول اللہﷺ نے ان کو یہ رعایت فرمائی تھی لہٰذا شرط پر استد لال کمزور ہو جائے گا، البتہ امام بخاری جیسے عظیم محدث نے فیصلہ فرمایا ہے کہ شرط لگانے کے الفاظ زیادہ اور قوی ہیں، اس لیے ترجیح اسی کو ہو گی۔ فوائد و مسائل:1۔ آپ کا بار بار فرمانا دراصل اس کو زیادہ دعا دینے کے لیے تھا اور شفقت کے طور پر بھی۔ یہ جملہ دعائیہ ہے۔ مسلمانوں کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص دوسرے کو کسی بات کا حکم دیتا یا اس سے کوئی معاملہ کرتا تو اس وقت یہ دعائیہ جملے بولا کرتا تھا۔ یہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے فضیلت کی بات ہے۔ ایک ہی واقعہ اسانید کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام تفصیلات و جزئیات اوضح ہو جاتی ہیں اور لفظی فرق کا پتا بھی چل جاتا ہے۔ جب روایات میں لفظی فرق ہو تو کسی ایک فریق کا لفظ سے استد لال کرنا کمزور ہو جاتا ہے، جیسے اس حدیث میں اختلاف ہے کہ مدینہ منورہ تک استد لال کی شرط حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیع میں لگائی تھی یا رسول اللہﷺ نے ان کو یہ رعایت فرمائی تھی لہٰذا شرط پر استد لال کمزور ہو جائے گا، البتہ امام بخاری جیسے عظیم محدث نے فیصلہ فرمایا ہے کہ شرط لگانے کے الفاظ زیادہ اور قوی ہیں، اس لیے ترجیح اسی کو ہو گی۔