سنن النسائي - حدیث 4641

كِتَابُ الْبُيُوعِ الْبَيْعُ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ، فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَالشَّرْطُ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعْدَانُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَعْيَا جَمَلِي، فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَيِّبَهُ، فَلَحِقَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا لَهُ، فَضَرَبَهُ، فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ، فَقَالَ: «بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ؟»، قُلْتُ: لَا. قَالَ: «بِعْنِيهِ؟» فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ، وَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلَانَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ، وَابْتَغَيْتُ ثَمَنَهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَأَرْسَلَ إِلَيَّ، فَقَالَ: «أَتُرَانِي إِنَّمَا مَاكَسْتُكَ لِآخُذَ جَمَلَكَ، خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4641

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل بیع میں کوئی شرط لگالی جائے تو بیع اور شرط دونوں درست ہوں گے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھا۔ میرا اونٹ چلنے سے عاجز آ گیا۔ میں نے سوچا، اسے (وہیں) چھوڑ دوں۔ اتنے میں رسول اللہﷺ مجھے پیچھے سے آ ملے۔ آپ نے اس کے لیے دعا بھی فرمائی اور اسے مارا بھی۔ پھر تو وہ ایسے چلنے لگا کہ (ساری زندگی) کبھی ایسا نہیں چلا تھا، پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ اونٹ ایک اوقیہ (چالیس در ہم) میں مجھے بیچ دے۔‘‘ تو میں نے وہ اونٹ آپ کو ایک اوقیے میں بیچ دیا اور میں نے مدینہ منورہ تک سوار ہو کر جانے کی شرط لگالی۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے، میں آپ کے پاس اونٹ لے کر حاضر ہوا اور آپ سے قیمت طلب کی۔ میں قیمت لے کر واپس جانے لگا تو آپ نے مجھے واپس بلا بھیجا اور فرمایا: ’’کیا تو سمجھتا ہے کہ میں نے تیرا اونٹ لینے کے لیے تجھے کم قیمت دی ہے؟ اپنا اونٹ بھی لے جا اور قیمت بھی۔‘‘
تشریح : مندرجہ ذیل فوائد و مسائل کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اہم بات ضرور یا درہنی چاہیے کہ اس باب کے تحت مذکور حدیث حدیثِ جابر کے نام سے معروف ہے۔ اس کے بہت سے طرق ہیں، لہٰذا ان طرق کے لحاظ سے الفاظ کی کمی بیشی اور تفصیل واجمال سب کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ فوائد و مسائل تحریر کیے گئے ہیں۔ فوائد و مسائل: 1۔سودا کرتے ہوئے اگر ایسی شرط لگائی جائے جو مقصودِ عقد کے منافی نہ ہو تو اس صورت میں بیع اور شرط جائز ہو گی، خواہ اس شرط سے خرید نے یا بیچنے والے کو اضافی فائدہ حاصل ہوتا ہو۔ جس شخص کے پاس کوئی چیز ہو اس سے اس چیز کا سواد کرنا جائز ہے، نیز یہ حدیث سفر میں سودا کرنے کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خرید و فروخت کے وقت، خریدار چیز کی قیمت بتا سکتا ہے کہ میں تمھاری چیز اتنی رقم میں خریدوں گا، یا تم مجھے اپنی فلاں چیز اتنی رقم کے عوض دے دو، اسی طرح سودا پکا ہونے سے پہلے، بیع (سودے) کی قیمت کم و بیش کرنے، کرانے کی بابت بحث کرنا درست ہے، البتہ یہ ناجائز ہے کہ کسی چیز کی قیمت، جائز حدود سے کم و بیش کرنے، کرانے کی بابت بحث کرنا درست ہے، البتہ یہ نا جائز ہے کہ کسی چیز کی قیمت، جائز حدود سے کم کرانے کے لیے اپنا اثر ور سوخ اور منصب و اختیار استعمال کیا جائے اور مالک کو نقصان پہنچایا جائے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحت بیع (سودا درست ہونے) کے لیے مبیع قبضے میں لینا شرط نہیں جیسا کہ خود رسول اللہﷺ نے سودا کر کے مبیع، یعنی اونٹ اپنے قبضے میں نہیں لیا بلکہ وہ مدینے تک سواری کے لیے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ہی رہا، البتہ یہ ضروری ہے کہ اس خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کیا جائے ایسا کرنا شرعاً نا جائز اور حرام ہے۔ عمر اور مرتبے میں بڑی شخصیت کو جائز معاملے میں ’’نہیں‘‘ کہا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہﷺ کے کے جواب میں پہلے کہا: یہ بے ادبی یا گستاخی نہیں۔ یہ حدیث اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نیک اور صالح عمل کا اظہار کرنا جبکہ وہ افراط تفریط اور فخر و ریا، نیز اپنی بڑائی بیان کرنے کی غرض سے نہ ہو شرعاً مباح اور جائز ہے۔ اگر ایسا کرنے کا مقصد اپنی نیکی اور پارسائی کا اظہار ہو یا بطور فخر ایسا کیا جائے تو یہ نا جائز اور انتہائی قبیح عمل ہے۔ اس سے احتراز کرنا ضروری اور واجب ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے، بوقت ضرورت جانوروں کو مارنے کا جواز نکلتا ہے۔ اگرچہ جانور غیر مکلف ہیں، تا ہم ان کی ’’اصلاح‘‘ کے لیے انھین ’’سزا‘‘ دی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے بذاتِ خود، اپنے دستِ مبارکہ سے اونٹ کو مارا تھا۔ یہ یاد رہے کہ یہ طریقہ اس وقت استعمال کیا جائے جب جانور تھکاوٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ضد کی وجہ سے تنگ کر رہا ہو۔ حاکم وقت، یا دیگر ذمہ داران کو اپنے ماتحت اشخاص کے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ان کی مالی معاونت کرنی چاہیے، نیز ہر وقت احساس کے جذبے سے معمور رہنا چاہیے جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے حضرت جابر کے ساتھ۔ قرض کی ادائیگی کر دو۔ ثمن کا وزن کرنا مشتری کے ذمے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ادھار چیز خریدنا شرعاً درست اور جائز ہے۔ ضرورت کے وقت چو پائے مسجد کے صحن میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر سازو سامان بھی مسجد کے صحن میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا عطیہ قبول کرنے سے پہلے، اس پر رد کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اونٹ کی بابت کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا ہے لیکن آپ نے فرمایا: ’’نہیں (میں بلا قیمت قبول نہیں کرتا) بلکہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔‘‘ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہﷺ کے تبرات کی حفاظت کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ’’رسول اللہﷺ کی جانب سے زیادہ دیا ہوا قیراط مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوا، میں نے اسے ایک تھیلی میں ڈال دیا۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہے کہ تبرکات مستند ذریعے سے ثابت ہوں، خود ساختہ نہ ہوں، نیز تبرکات کے نا قلین بھی ثقہ ہوں، غیر معتبر لوگوں کے قصے کہانیوں پر بلا تحقیق اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت بھی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کی فرماں برداری کرتے ہوئے، ذاتی ضرورت کے باوجود اونٹ آپ کو بیچ دیا۔ اس حدیث سے رسول اللہﷺ کے معجزے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ یاد رہے معجزے میں قدرت الٰہی کار فرما ہوتی ہے۔ اس میں انسانی اختیار نہیں ہوتا۔ اس حدیث سے رسول اللہﷺ کے حسن اخلاق کا اثبات بھی بھی ہوتا ہے۔ آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ صرف یہ کہ طے شدہ قیمت سے قیراط زیادہ دیا بلکہ وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ ’’شرط لگالی‘‘ گویا ایسی شرط بیع کے پکا ہونے کے منافی نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں۔ احناف اس شرط کو مقتضائے عقد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شرط نہیں تھی بلکہ رسول اللہﷺ کی طرف سے ان کے لیے رعایت تھی۔ کسی راوی نے غلطی سے شرط کہہ دیا لیکن احناف کی یہ توجیہ محدثین کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اکثر راوی شرط بیان کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل فوائد و مسائل کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ اہم بات ضرور یا درہنی چاہیے کہ اس باب کے تحت مذکور حدیث حدیثِ جابر کے نام سے معروف ہے۔ اس کے بہت سے طرق ہیں، لہٰذا ان طرق کے لحاظ سے الفاظ کی کمی بیشی اور تفصیل واجمال سب کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ فوائد و مسائل تحریر کیے گئے ہیں۔ فوائد و مسائل: 1۔سودا کرتے ہوئے اگر ایسی شرط لگائی جائے جو مقصودِ عقد کے منافی نہ ہو تو اس صورت میں بیع اور شرط جائز ہو گی، خواہ اس شرط سے خرید نے یا بیچنے والے کو اضافی فائدہ حاصل ہوتا ہو۔ جس شخص کے پاس کوئی چیز ہو اس سے اس چیز کا سواد کرنا جائز ہے، نیز یہ حدیث سفر میں سودا کرنے کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خرید و فروخت کے وقت، خریدار چیز کی قیمت بتا سکتا ہے کہ میں تمھاری چیز اتنی رقم میں خریدوں گا، یا تم مجھے اپنی فلاں چیز اتنی رقم کے عوض دے دو، اسی طرح سودا پکا ہونے سے پہلے، بیع (سودے) کی قیمت کم و بیش کرنے، کرانے کی بابت بحث کرنا درست ہے، البتہ یہ ناجائز ہے کہ کسی چیز کی قیمت، جائز حدود سے کم و بیش کرنے، کرانے کی بابت بحث کرنا درست ہے، البتہ یہ نا جائز ہے کہ کسی چیز کی قیمت، جائز حدود سے کم کرانے کے لیے اپنا اثر ور سوخ اور منصب و اختیار استعمال کیا جائے اور مالک کو نقصان پہنچایا جائے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحت بیع (سودا درست ہونے) کے لیے مبیع قبضے میں لینا شرط نہیں جیسا کہ خود رسول اللہﷺ نے سودا کر کے مبیع، یعنی اونٹ اپنے قبضے میں نہیں لیا بلکہ وہ مدینے تک سواری کے لیے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ہی رہا، البتہ یہ ضروری ہے کہ اس خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کیا جائے ایسا کرنا شرعاً نا جائز اور حرام ہے۔ عمر اور مرتبے میں بڑی شخصیت کو جائز معاملے میں ’’نہیں‘‘ کہا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہﷺ کے کے جواب میں پہلے کہا: یہ بے ادبی یا گستاخی نہیں۔ یہ حدیث اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نیک اور صالح عمل کا اظہار کرنا جبکہ وہ افراط تفریط اور فخر و ریا، نیز اپنی بڑائی بیان کرنے کی غرض سے نہ ہو شرعاً مباح اور جائز ہے۔ اگر ایسا کرنے کا مقصد اپنی نیکی اور پارسائی کا اظہار ہو یا بطور فخر ایسا کیا جائے تو یہ نا جائز اور انتہائی قبیح عمل ہے۔ اس سے احتراز کرنا ضروری اور واجب ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے، بوقت ضرورت جانوروں کو مارنے کا جواز نکلتا ہے۔ اگرچہ جانور غیر مکلف ہیں، تا ہم ان کی ’’اصلاح‘‘ کے لیے انھین ’’سزا‘‘ دی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے بذاتِ خود، اپنے دستِ مبارکہ سے اونٹ کو مارا تھا۔ یہ یاد رہے کہ یہ طریقہ اس وقت استعمال کیا جائے جب جانور تھکاوٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ضد کی وجہ سے تنگ کر رہا ہو۔ حاکم وقت، یا دیگر ذمہ داران کو اپنے ماتحت اشخاص کے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ان کی مالی معاونت کرنی چاہیے، نیز ہر وقت احساس کے جذبے سے معمور رہنا چاہیے جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے حضرت جابر کے ساتھ۔ قرض کی ادائیگی کر دو۔ ثمن کا وزن کرنا مشتری کے ذمے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ادھار چیز خریدنا شرعاً درست اور جائز ہے۔ ضرورت کے وقت چو پائے مسجد کے صحن میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر سازو سامان بھی مسجد کے صحن میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کا عطیہ قبول کرنے سے پہلے، اس پر رد کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اونٹ کی بابت کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کا ہے لیکن آپ نے فرمایا: ’’نہیں (میں بلا قیمت قبول نہیں کرتا) بلکہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔‘‘ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہﷺ کے تبرات کی حفاظت کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ’’رسول اللہﷺ کی جانب سے زیادہ دیا ہوا قیراط مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوا، میں نے اسے ایک تھیلی میں ڈال دیا۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہے کہ تبرکات مستند ذریعے سے ثابت ہوں، خود ساختہ نہ ہوں، نیز تبرکات کے نا قلین بھی ثقہ ہوں، غیر معتبر لوگوں کے قصے کہانیوں پر بلا تحقیق اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت بھی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کی فرماں برداری کرتے ہوئے، ذاتی ضرورت کے باوجود اونٹ آپ کو بیچ دیا۔ اس حدیث سے رسول اللہﷺ کے معجزے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ یاد رہے معجزے میں قدرت الٰہی کار فرما ہوتی ہے۔ اس میں انسانی اختیار نہیں ہوتا۔ اس حدیث سے رسول اللہﷺ کے حسن اخلاق کا اثبات بھی بھی ہوتا ہے۔ آپ نے سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ صرف یہ کہ طے شدہ قیمت سے قیراط زیادہ دیا بلکہ وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ ’’شرط لگالی‘‘ گویا ایسی شرط بیع کے پکا ہونے کے منافی نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں۔ احناف اس شرط کو مقتضائے عقد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شرط نہیں تھی بلکہ رسول اللہﷺ کی طرف سے ان کے لیے رعایت تھی۔ کسی راوی نے غلطی سے شرط کہہ دیا لیکن احناف کی یہ توجیہ محدثین کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اکثر راوی شرط بیان کرتے ہیں۔