سنن النسائي - حدیث 4636

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، وَهُوَ أَنْ يَقُولَ: أَبِيعُكَ هَذِهِ السِّلْعَةَ بِمِائَةِ دِرْهَمٍ نَقْدًا، وَبِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ نَسِيئَةً حسن صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4636

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل ایک سودے میں دو سودے کرنا اور اس سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا کہے کہ میں تجھے یہ سامان نقد سو درہم میں اور ادھار دو سور درہم میں بیچتا ہوں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا۔
تشریح : ایک سودے میں دو سودوں کی ایک تفسیر تو مصنف رحمہ اللہ نے خود فرمائی ہے۔ اس کی کچھ بحث حدیث ۴۶۱۵ میں بیان ہو چکی ہے کہ اگر ادھار یا نقد ایک سودے پر بات طے ہو جائے تو نقد و ادھار قیمت کے فرق میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ فرق فطری ہے، البتہ اگر کوئی ایک سودا طے نہ ہو، فلاں چیز بیچتا ہوں بشر طیکہ تو مجھے فلاں چیز بیچے۔ یہ جائز نہیں کیونکہ دوسری چیز کی فروخت کی شرط لگا کرنا جائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’ایک بیع میں دو بیع‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ (بائع مشتری کو کہے:) میں تجھے فلاں چیز ادھار سو روپے کی دیتا ہوں اور تجھ سے ابھی نقد اسی روپے کی لیتا ہوں۔ اور پگر اسے چیز کی بجائے ۸۰ روپے دے دے اور سال کے بعد سو روپے وصول کر لے۔ ظاہرہے یہ ایک بیع میں دو سودے ہو رہے ہیں۔ اور یہ صریح سود ہے۔ ایسی بیع فاسد ہو گی کیونکہ یہ در حقیقت بیع ہے ہی نہیں۔ نہ کوئی چیز بیچی یا خریدی جا رہی ہے بلکہ اسی روپے دے کر سال کے بعد سو روپے لیے جا رہے ہیں جو صریح سود ہے۔ عصر حاضر میں بھی بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ بیع کا لفظ تو صرف دھوکا دینے کے لیے بولا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں وہ اسی روپے ہی واپس کرے گا۔ اگر یہ سو روپے واپس لے گا تو یہ سود ہو گا۔ یہ آخری دو صورتیں اس حدیث (ایک سودے میں دو سودے) کی بہترین تفسیر ہیں اور یہ دونوں منع ہیں، البتہ پہلی صورت نقد و ادھار والی صحیح ہے۔ اگر سود ایک صورت میں طے ہو جائے تو ادھار اور نقد قیمت میں فرق ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک بیع ہے، دو نہیں، لہٰذا یہ صورت اس حدیث کی صحیح تفسیر نہیں۔ ابہام باقی رہے، کوئی اور صورت طے نہ ہو تو اسے اس حدیث کے تحت لایا جا سکتا ہے۔ ایک سودے میں دو سودوں کی ایک تفسیر تو مصنف رحمہ اللہ نے خود فرمائی ہے۔ اس کی کچھ بحث حدیث ۴۶۱۵ میں بیان ہو چکی ہے کہ اگر ادھار یا نقد ایک سودے پر بات طے ہو جائے تو نقد و ادھار قیمت کے فرق میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ فرق فطری ہے، البتہ اگر کوئی ایک سودا طے نہ ہو، فلاں چیز بیچتا ہوں بشر طیکہ تو مجھے فلاں چیز بیچے۔ یہ جائز نہیں کیونکہ دوسری چیز کی فروخت کی شرط لگا کرنا جائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’ایک بیع میں دو بیع‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ (بائع مشتری کو کہے:) میں تجھے فلاں چیز ادھار سو روپے کی دیتا ہوں اور تجھ سے ابھی نقد اسی روپے کی لیتا ہوں۔ اور پگر اسے چیز کی بجائے ۸۰ روپے دے دے اور سال کے بعد سو روپے وصول کر لے۔ ظاہرہے یہ ایک بیع میں دو سودے ہو رہے ہیں۔ اور یہ صریح سود ہے۔ ایسی بیع فاسد ہو گی کیونکہ یہ در حقیقت بیع ہے ہی نہیں۔ نہ کوئی چیز بیچی یا خریدی جا رہی ہے بلکہ اسی روپے دے کر سال کے بعد سو روپے لیے جا رہے ہیں جو صریح سود ہے۔ عصر حاضر میں بھی بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ بیع کا لفظ تو صرف دھوکا دینے کے لیے بولا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں وہ اسی روپے ہی واپس کرے گا۔ اگر یہ سو روپے واپس لے گا تو یہ سود ہو گا۔ یہ آخری دو صورتیں اس حدیث (ایک سودے میں دو سودے) کی بہترین تفسیر ہیں اور یہ دونوں منع ہیں، البتہ پہلی صورت نقد و ادھار والی صحیح ہے۔ اگر سود ایک صورت میں طے ہو جائے تو ادھار اور نقد قیمت میں فرق ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک بیع ہے، دو نہیں، لہٰذا یہ صورت اس حدیث کی صحیح تفسیر نہیں۔ ابہام باقی رہے، کوئی اور صورت طے نہ ہو تو اسے اس حدیث کے تحت لایا جا سکتا ہے۔