سنن النسائي - حدیث 4632

كِتَابُ الْبُيُوعِ الْبَيْعُ إِلَى الْأَجَلِ الْمَعْلُومِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ قَالَ: أَنْبَأَنَا عِكْرِمَةُ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُرْدَيْنِ قِطْرِيَّيْنِ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ فَعَرِقَ فِيهِمَا ثَقُلَا عَلَيْهِ، وَقَدِمَ لِفُلَانٍ الْيَهُودِيِّ بَزٌّ مِنَ الشَّأْمِ، فَقُلْتُ: لَوْ أَرْسَلْتَ إِلَيْهِ فَاشْتَرَيْتَ مِنْهُ ثَوْبَيْنِ إِلَى الْمَيْسَرَةِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ مَا يُرِيدُ مُحَمَّدٌ، إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِمَالِي أَوْ يَذْهَبَ بِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَذَبَ، قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ، وَآدَاهُمْ لِلْأَمَانَةِ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4632

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل معین مدت تک ادھار سودا (جائز ہے) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہﷺ کے جسم مبارک پر قطر بستی کی نبی ہوئی دو موٹی چادریں تھیں۔ جب آپ بیٹھتے تو ان میں پسینہ آ جاتا جس سے وہ بوجھل ہو جاتیں۔ فلاں یہودی کے ہاں شام سے کپڑے آئے تو میں نے کہا: اگر آپ اس کو پیغام بھیج کر دو کپڑے ادھار خرید لیں کہ جب سہولت ہوگی تو رقم دے دوں گا (تو اچھی بات ہے)۔ آپ نے اسے پیغام بھیجا تو وہ کہنے لگا: میں جانتا ہوں (حضرت) محمد(ﷺ) کا کیا ارادہ ہے؟ وہ میری رقم دبانا چاہتے ہیں یا یہ چادریں مفت میں لینا چاہتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اس کو دل میں یقین ہے کہ میں سب لوگوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور سب سے بڑھ کر امانت ادا کرنے والا ہوں۔‘‘
تشریح : 1-معلوم ہوا معین مدت تک ادھار سودا لینا جائز ہے۔ اگر ایسا کرنا، جائز نہ ہوتا تو رسول اللہﷺ ہر گز یہ کام نہ کرتے اور وہ بھی خبیث الفطرت یہودی سے۔ 2-یہ حدیث مبارکہ نبی اکرمﷺ کی سادگی اور آپ کی کسمپر سانہ گزارنے پر بھی دلالت کرتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو یہ اختیار دیا تھا کہ آپ چاہیں تو آپ کو بادشاہ نبی بنا دیا جائے اور اگر چاہیں تو ’’عبد‘‘ بنایا جائے۔ اس پیش کش کے باوجود رسول اللہﷺ نے عبد، یعنی اللہ کے درکا فقیر نبی بننے ہی کو ترجیح دی۔ یہ اس لیے کہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں، آخرت میں جو کچھ ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اسی باعث رسول اللہﷺ نے دنیوی مال و متاع اور بادشاہت کو ذرہ برابر حیثیت نہیں دی۔ 3-یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے رسولﷺ تمام مخلوق کی نسبت اللہ سے زیادہ ڈاتے تھے، اس لیے آپ کے طریقے سے ہٹ کر خوف الٰہی کے خود ساختہ طریقے مردود ہیں اور ایسا دعوی کرنے والا انسان جھوٹا ہے، نیز آپ تمام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ باوفا اور ایفائے عہد کرنے والے اور سب سے بڑھ کر امانتیں ادا کرنے والے تھے،4- آپ کا یہودیوں کے ساتھ معاملات اور لین دین کرنا، جبکہ وہ واضح طور پر رشوت اور حرام خور لوگ تھے، اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے پاس حرام مال ہو اس کے ساتھ معاملہ کرنا درست ہے بشر طیکہ جس مال کا معاملہ ہو رہا ہے وہ حرام نہ ہو۔ 5-’’جب سہولت ہو گی‘‘ گویا آپ نے کوئی مدت مقرر نہ فرمائی تھی جبکہ باب میں معین مدت کا ذکر ہے، لہٰذا باب یوں ہونا چاہیے ’’غیر معینہ مدت ک بیع‘‘ اور سنن کبری میں یہ باب اسی طرح ہے تا کہ حدیث باب کے مطابق بن سکے۔ 6-’’قطر بستی‘‘ یہ بحرین کے علاقے کی ایک بستی تھی جہاں بہترین کپڑے تیار ہوتے تھے۔ 7-اگر باب کا عنوان یہی رہے جوہے تو حدیث سے مناسبت اس طرح ہو گی کہ سہولت کا وقت ان کے ہاں متعین تھا، مثلاً: جب کٹائی کا وقت ہو اور کھجوریں گھروں میں آئیں وغیرہ۔ یہ بھی تعین ہی ہے۔8- ’’میں جانتا ہوں‘‘ یعنی اس صرف ادھار سے بچنے کے لیے یہ جھوٹ گھڑا ہے ورنہ اس کے دل میں بھی یہ بات نہیں تھی۔ 1-معلوم ہوا معین مدت تک ادھار سودا لینا جائز ہے۔ اگر ایسا کرنا، جائز نہ ہوتا تو رسول اللہﷺ ہر گز یہ کام نہ کرتے اور وہ بھی خبیث الفطرت یہودی سے۔ 2-یہ حدیث مبارکہ نبی اکرمﷺ کی سادگی اور آپ کی کسمپر سانہ گزارنے پر بھی دلالت کرتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو یہ اختیار دیا تھا کہ آپ چاہیں تو آپ کو بادشاہ نبی بنا دیا جائے اور اگر چاہیں تو ’’عبد‘‘ بنایا جائے۔ اس پیش کش کے باوجود رسول اللہﷺ نے عبد، یعنی اللہ کے درکا فقیر نبی بننے ہی کو ترجیح دی۔ یہ اس لیے کہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں، آخرت میں جو کچھ ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اسی باعث رسول اللہﷺ نے دنیوی مال و متاع اور بادشاہت کو ذرہ برابر حیثیت نہیں دی۔ 3-یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے رسولﷺ تمام مخلوق کی نسبت اللہ سے زیادہ ڈاتے تھے، اس لیے آپ کے طریقے سے ہٹ کر خوف الٰہی کے خود ساختہ طریقے مردود ہیں اور ایسا دعوی کرنے والا انسان جھوٹا ہے، نیز آپ تمام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ باوفا اور ایفائے عہد کرنے والے اور سب سے بڑھ کر امانتیں ادا کرنے والے تھے،4- آپ کا یہودیوں کے ساتھ معاملات اور لین دین کرنا، جبکہ وہ واضح طور پر رشوت اور حرام خور لوگ تھے، اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے پاس حرام مال ہو اس کے ساتھ معاملہ کرنا درست ہے بشر طیکہ جس مال کا معاملہ ہو رہا ہے وہ حرام نہ ہو۔ 5-’’جب سہولت ہو گی‘‘ گویا آپ نے کوئی مدت مقرر نہ فرمائی تھی جبکہ باب میں معین مدت کا ذکر ہے، لہٰذا باب یوں ہونا چاہیے ’’غیر معینہ مدت ک بیع‘‘ اور سنن کبری میں یہ باب اسی طرح ہے تا کہ حدیث باب کے مطابق بن سکے۔ 6-’’قطر بستی‘‘ یہ بحرین کے علاقے کی ایک بستی تھی جہاں بہترین کپڑے تیار ہوتے تھے۔ 7-اگر باب کا عنوان یہی رہے جوہے تو حدیث سے مناسبت اس طرح ہو گی کہ سہولت کا وقت ان کے ہاں متعین تھا، مثلاً: جب کٹائی کا وقت ہو اور کھجوریں گھروں میں آئیں وغیرہ۔ یہ بھی تعین ہی ہے۔8- ’’میں جانتا ہوں‘‘ یعنی اس صرف ادھار سے بچنے کے لیے یہ جھوٹ گھڑا ہے ورنہ اس کے دل میں بھی یہ بات نہیں تھی۔