سنن النسائي - حدیث 4629

كِتَابُ الْبُيُوعِ تَفْسِيرُ ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ، وَكَانَ بَيْعًا يَتَبَايَعُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، كَانَ الرَّجُلُ يَبْتَاعُ جَزُورًا إِلَى أَنْ تُنْتِجَ النَّاقَةُ، ثُمَّ تُنْتِجُ الَّتِي فِي بَطْنِهَا»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4629

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل اس بیع کی تفسیر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے (حمل کے حمل) کی بیع سے منع فرمایا اور یہ ایک قسم کی بیع تھی جو جاہلیت والے آپس میں کرتے تھے۔ کوئی آدمی اونٹنی خریدتا کہ اس کی قیمت اس وقت دوں گا جب یہ اونٹنی (مادہ) بچہ جنے اور پھر اس کے پھر اس کے پیٹ والی اونٹنی (بڑی ہو کر) بچہ جنے۔
تشریح : حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ تفسیر سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ ادائیگی کی مدت مجہول ہے۔ مزید بر آں یہ معلوم ہی نہیں کہ اونٹنی مئونث جنے گی یا مذکر؟ مادہ بچہ جننے کی صورت میں پھر یہ معلوم نہیں کہ وہ مئونث بڑی بھی ہو گی یا نہیں؟ اگر بڑی ہو گئی تو آگے حاملہ ہو گی یا نہیں؟ پھر نہ معلوم بچہ ہو گا یا نہ ہو گا؟ (تفصیل حدیث نمبر ۴۶۲۶ میں گزر چکی ہے) لہٰذا یہ بیع منع ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ تفسیر سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ ادائیگی کی مدت مجہول ہے۔ مزید بر آں یہ معلوم ہی نہیں کہ اونٹنی مئونث جنے گی یا مذکر؟ مادہ بچہ جننے کی صورت میں پھر یہ معلوم نہیں کہ وہ مئونث بڑی بھی ہو گی یا نہیں؟ اگر بڑی ہو گئی تو آگے حاملہ ہو گی یا نہیں؟ پھر نہ معلوم بچہ ہو گا یا نہ ہو گا؟ (تفصیل حدیث نمبر ۴۶۲۶ میں گزر چکی ہے) لہٰذا یہ بیع منع ہے۔