سنن النسائي - حدیث 4624

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَيَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ قَالُوا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ و أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4624

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: حیوان کی حیوان کے بدلے ادھار بیع (نا جائز ہے) حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کے بدلے حیوان کی ادھار بیع سے منع فرمایا۔
تشریح : پچھلے باب کی روایات حیوان قرض لینے کے بارے میں تھیں ادوہ جائز ہے۔ یہ باب اور یہ حدیث حیوان کی بیع کے بارے میں ہے۔ قرض تو ہوتا ہی ادھار ہے، البتہ بیع نقد بھی ہو سکتی ہے ادھار بھی۔ حیوان کی بیع حیوان کے ساتھ نقد تو درست ہے، خواہ کمی بیشی ہی ہو، مثلاََ: ایک طرف ایک جانور ہے اور دوسری طرف دو یا تین تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آئندہ باب میں صراحت ہے لیکن حیوان کی بیع حیوان کے بدلے میں ہو تو ادھار درست نہیں۔ جن لوگوں نے پچھلے باب کی حدیثوں میں بیان کردہ قرض کی صورت کو بیع قرار دیا ہے انھیں اس روایت کی تاویل کرنا پڑے گی جیسا کہ امام شافع رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حیوان کی بیع حیوان کے بدلے اس وقت منع ہے جب دونوں طرف ادھار ہو جیسا کہ میں ہوتا ہے۔ اگر ادھار ایک طرف ہو تو بیع جائز ہے۔ اس تاویل سے پچھلے باب کی روایات اس حدیث کے خلاف نہیں ر ہیں گی لیکن صحیح یہ ہے کہ ادھار بیع تو ہر صورت میں منع ہے۔ ادھار ایک طرف ہو یا دونوںطرف ، البتہ حیوان کا قرض جائز ہے۔ گویا بیع اور قرض کے حکم میں فرق ہے۔ اس طریقے سے نہ تو حدیث کی تاویل کرنی پڑے گی اور نہ سابقہ احادیث کا انکار۔ اور یہی طریقہ صحیح ہے۔ بیع اور قرض میں فرق صرف حیوان کے مسئلے ہی میں نہیں دیگر اشیاء میں بھی جاری و ساری ہے۔ پچھلے باب کی روایات حیوان قرض لینے کے بارے میں تھیں ادوہ جائز ہے۔ یہ باب اور یہ حدیث حیوان کی بیع کے بارے میں ہے۔ قرض تو ہوتا ہی ادھار ہے، البتہ بیع نقد بھی ہو سکتی ہے ادھار بھی۔ حیوان کی بیع حیوان کے ساتھ نقد تو درست ہے، خواہ کمی بیشی ہی ہو، مثلاََ: ایک طرف ایک جانور ہے اور دوسری طرف دو یا تین تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آئندہ باب میں صراحت ہے لیکن حیوان کی بیع حیوان کے بدلے میں ہو تو ادھار درست نہیں۔ جن لوگوں نے پچھلے باب کی حدیثوں میں بیان کردہ قرض کی صورت کو بیع قرار دیا ہے انھیں اس روایت کی تاویل کرنا پڑے گی جیسا کہ امام شافع رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حیوان کی بیع حیوان کے بدلے اس وقت منع ہے جب دونوں طرف ادھار ہو جیسا کہ میں ہوتا ہے۔ اگر ادھار ایک طرف ہو تو بیع جائز ہے۔ اس تاویل سے پچھلے باب کی روایات اس حدیث کے خلاف نہیں ر ہیں گی لیکن صحیح یہ ہے کہ ادھار بیع تو ہر صورت میں منع ہے۔ ادھار ایک طرف ہو یا دونوںطرف ، البتہ حیوان کا قرض جائز ہے۔ گویا بیع اور قرض کے حکم میں فرق ہے۔ اس طریقے سے نہ تو حدیث کی تاویل کرنی پڑے گی اور نہ سابقہ احادیث کا انکار۔ اور یہی طریقہ صحیح ہے۔ بیع اور قرض میں فرق صرف حیوان کے مسئلے ہی میں نہیں دیگر اشیاء میں بھی جاری و ساری ہے۔