سنن النسائي - حدیث 462

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَاب الْمُحَافَظَةِ عَلَى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي كِنَانَةَ يُدْعَى الْمُخْدَجِيَّ سَمِعَ رَجُلًا بِالشَّامِ يُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ يَقُولُ الْوِتْرُ وَاجِبٌ قَالَ الْمُخْدَجِيُّ فَرُحْتُ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَاعْتَرَضْتُ لَهُ وَهُوَ رَائِحٌ إِلَى الْمَسْجِدِ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ فَقَالَ عُبَادَةُ كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ مَنْ جَاءَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 462

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل پانچ نمازوں کی پابندی کرنا (ضروری ہے) ابن محیریز سے روایت ہے کہ بنوکنانہ کے ایک آدمی نے، جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے علاقے میں ایک آدمی کو، جس کی کنیت ابومحمد تھی، یہ کہتے ہوئے سنا کہ وتر واجب ہے۔ مخدجی نے کہا: میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا جب کہ وہ مسجد کو جارہے تھے۔ میں نے ان کو آگے سے روک لیا اور ابومحمد کے قول کی خبردی۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ابومحمد نے غلط کہا ہے۔ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’پانچ نمازیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں، جو آدمی انھیں ادا کرے، ان میں سے کسی کو ان کی حیثیت ہلکی سمجھ کر ضائع نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے وعدہ ہوچکا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے کوئی عہد نہیں۔ چاہے اسے عذاب دے، چاہے جنت میں داخل کرے۔‘‘
تشریح : (۱)احناف وتر کو واجب کہتے ہیں مگر ان کا استدلال ایسی روایات سے ہے جو کمزور ہیں یا وہ ایک سے زائد معانی کا احتمال رکھتی ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں صحیح اور قطعی روایات جو تواتر کو پہنچتی ہیں، پانچ نمازوں کی فرضیت کا اعلان کرتی ہیں اور زائد کی فرضیت ووجوب کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا ان کی بات صحیح نہیں، بلکہ اسے سنت مؤکدہ کہنا چاہیے جسے بلاوجہ ترک نہیں کیا جاسکتا۔ (۲)وتر کے معنی عربی میں ’’طاق‘‘ کے ہیں۔ تعداد رکعات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس نماز کو وتر کہا جاتا ہے۔ (۳)حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کا استدلال واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح طور پر پانچ نمازوں کی فرضیت کا اظہار فرمایا اور انھیں دخول جنت کا لازمی سبب بتایا ہے۔ اگر وتر فرض ہوتا تو آپ اس کا بھی ذکر فرماتے۔ (۴) [ادخلہ اللہ الجنۃ] کیونکہ نماز دوسرے فرائض کی ادائیگی اور منہیات سے اجتناب کا سبب بنتی ہے، بلکہ ضامن ہے، اس لیے نمازی کے لیے دخول جنت کا انعام ہے، اولاً ہو یا ثانیاً۔ (۵) ’’چاہے تو جنت میں داخل کرے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اپنے حقوق میں کوتاہی پر بازپرس نہ کرے۔ (۱)احناف وتر کو واجب کہتے ہیں مگر ان کا استدلال ایسی روایات سے ہے جو کمزور ہیں یا وہ ایک سے زائد معانی کا احتمال رکھتی ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں صحیح اور قطعی روایات جو تواتر کو پہنچتی ہیں، پانچ نمازوں کی فرضیت کا اعلان کرتی ہیں اور زائد کی فرضیت ووجوب کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا ان کی بات صحیح نہیں، بلکہ اسے سنت مؤکدہ کہنا چاہیے جسے بلاوجہ ترک نہیں کیا جاسکتا۔ (۲)وتر کے معنی عربی میں ’’طاق‘‘ کے ہیں۔ تعداد رکعات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس نماز کو وتر کہا جاتا ہے۔ (۳)حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کا استدلال واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح طور پر پانچ نمازوں کی فرضیت کا اظہار فرمایا اور انھیں دخول جنت کا لازمی سبب بتایا ہے۔ اگر وتر فرض ہوتا تو آپ اس کا بھی ذکر فرماتے۔ (۴) [ادخلہ اللہ الجنۃ] کیونکہ نماز دوسرے فرائض کی ادائیگی اور منہیات سے اجتناب کا سبب بنتی ہے، بلکہ ضامن ہے، اس لیے نمازی کے لیے دخول جنت کا انعام ہے، اولاً ہو یا ثانیاً۔ (۵) ’’چاہے تو جنت میں داخل کرے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اپنے حقوق میں کوتاہی پر بازپرس نہ کرے۔