سنن النسائي - حدیث 4618

كِتَابُ الْبُيُوعِ السَّلَمُ فِي الطَّعَامِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى عَنْ السَّلَفِ قَالَ كُنَّا نُسْلِفُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فِي الْبُرِّ وَالشَّعِيرِ وَالتَّمْرِ إِلَى قَوْمٍ لَا أَدْرِي أَعِنْدَهُمْ أَمْ لَا وَابْنُ أَبْزَى قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4618

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب:۔ غلے میں بیع سلم کرنا حضرت عبد اللہ بن ابو مجالد سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن ابی اوفٰی رضی اللہ عنہ سے بیع سلف (یا سلم) کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں گندم، جو اور کھجور میں ایسے لوگوں کے ساتھ بیع سلف کیا کرتے تھے جن کے متعلق مجھے علم نہیں ہوتا تھا کہ ان کے پاس (غلہ یا زمین) ہے یا نہیں۔ حضرت ابن ابزٰی رضی اللہ عنہ نے بھی ایسے ہی فرمایا۔
تشریح : (1 )بیع سلم جائز ہے ۔ رسول ﷺ ،سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروقؓ کے زریں دور میں بیع سلم ہو کرتی تھی ۔ دیگر صحابہ کرام ؓ بھی یہ بیع کیا کرتے تھے ۔ (2)بیع کرتے وقت جو چیز موجو د ہی نہ ہو اس میں بیع سلم ہو سکتی ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ ادائیگی کے وقت وہ چیز بہر صورت مو جو د ہو ۔3)ذمی اوردیگر غیر مسلم لوگوں کے ساتھ جس طر ح عام تجارت اور خرید و فروخت کرنا جائز ہے ، اسی طر ح ان کے ساتھ بیع سلم کرنا بھی درست ہے ۔4) بیع سلم یاسلف ایک ہی چیز ہے کہ خریدار بائع کو رقم پہلے دےدے اور اس سے غلہ (جوکچھ خریدنا مقصود ہو) کی مقدار ،جنس ونوع اور بھاو طے کرلے اورغلے کی ادائیگی کا وقت متعین کر لے ،خواہ ابھی تک وہ غلہ منڈی میں نہ ا ٓیاہو یا بیچا بھی نہ گیا ہو ۔ سال دوسال پہلے بھی رقم دی جاسکتی ہے ۔ اس قسم کی بیع لو گو ں کی مجبوری ہے کیونکہ زمیندار کا شتکاروں کو فصل کے اخراجات کے لیے رقم کی پیشگی ضرورت ہوتی ہے ، لہٰذا اس بیع کو جائز رکھا گیا۔ جو شخص جس سے سودا ہوا ہے ، کاشتکار بھی ہو سکتا ہے غیرکاشتکار بھی کیو نکہ وہ خریدکر بھی مہیا کر سکتا ہے ۔ اس مسئلے کی کچھ تفصیل حدیث نمبر 4615 ، فائدہ نمبر 5اور حدیث نمبر4617 میں بیان ہوچکی ہے ۔ (1 )بیع سلم جائز ہے ۔ رسول ﷺ ،سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروقؓ کے زریں دور میں بیع سلم ہو کرتی تھی ۔ دیگر صحابہ کرام ؓ بھی یہ بیع کیا کرتے تھے ۔ (2)بیع کرتے وقت جو چیز موجو د ہی نہ ہو اس میں بیع سلم ہو سکتی ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ ادائیگی کے وقت وہ چیز بہر صورت مو جو د ہو ۔3)ذمی اوردیگر غیر مسلم لوگوں کے ساتھ جس طر ح عام تجارت اور خرید و فروخت کرنا جائز ہے ، اسی طر ح ان کے ساتھ بیع سلم کرنا بھی درست ہے ۔4) بیع سلم یاسلف ایک ہی چیز ہے کہ خریدار بائع کو رقم پہلے دےدے اور اس سے غلہ (جوکچھ خریدنا مقصود ہو) کی مقدار ،جنس ونوع اور بھاو طے کرلے اورغلے کی ادائیگی کا وقت متعین کر لے ،خواہ ابھی تک وہ غلہ منڈی میں نہ ا ٓیاہو یا بیچا بھی نہ گیا ہو ۔ سال دوسال پہلے بھی رقم دی جاسکتی ہے ۔ اس قسم کی بیع لو گو ں کی مجبوری ہے کیونکہ زمیندار کا شتکاروں کو فصل کے اخراجات کے لیے رقم کی پیشگی ضرورت ہوتی ہے ، لہٰذا اس بیع کو جائز رکھا گیا۔ جو شخص جس سے سودا ہوا ہے ، کاشتکار بھی ہو سکتا ہے غیرکاشتکار بھی کیو نکہ وہ خریدکر بھی مہیا کر سکتا ہے ۔ اس مسئلے کی کچھ تفصیل حدیث نمبر 4615 ، فائدہ نمبر 5اور حدیث نمبر4617 میں بیان ہوچکی ہے ۔