سنن النسائي - حدیث 4617

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَ الْبَائِعِ صحيح حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيَسْأَلُنِي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَبِيعُهُ مِنْهُ ثُمَّ أَبْتَاعُهُ لَهُ مِنْ السُّوقِ قَالَ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4617

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب:۔ جو چیز بیچنے والے کے پاس نہ ہو، اس کی بیع حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک آدمی آتا ہے اور مجھ سے ایسی چیز بیچنے کا مطالبہ کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ میں اس سے اس کا سودا کر لیتا ہوں، پھر میں اسے بازار سے خرید کر لا دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’جو چیز تیرے پاس نہیں، اس کا سودا نہ کر۔‘‘
تشریح : ’’سودا نہ کر‘‘ کیونکہ ممکن ہے وہ چیز تجھے بازار سے نہ ملے یا تیرے طے شدہ بھاؤ سے مہنگی ملے، پھر تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ ویسے اگر کسی معین چیز کا سودا نہ ہو بلکہ عام چیز جو بازار سے ملتی ہے اور خریدار کو علم ہو کہ یہ چیز اس کے پاس نہیں، بازار سے لا کر دے گا تو ان شاء اللہ اس کا سودا کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ سابقہ حدیث میں وضاحت بیع سلم یا سلف کی بحث میں آئے گی۔ ’’سودا نہ کر‘‘ کیونکہ ممکن ہے وہ چیز تجھے بازار سے نہ ملے یا تیرے طے شدہ بھاؤ سے مہنگی ملے، پھر تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ ویسے اگر کسی معین چیز کا سودا نہ ہو بلکہ عام چیز جو بازار سے ملتی ہے اور خریدار کو علم ہو کہ یہ چیز اس کے پاس نہیں، بازار سے لا کر دے گا تو ان شاء اللہ اس کا سودا کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ سابقہ حدیث میں وضاحت بیع سلم یا سلف کی بحث میں آئے گی۔