سنن النسائي - حدیث 4615

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَ الْبَائِعِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ عَنْ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4615

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب:۔ جو چیز بیچنے والے کے پاس نہ ہو، اس کی بیع حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا محترم (حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک دوسرے سے مشروط) قرض اور بیع جائز نہیں۔ اور بیع میں دو شرطیں جائز نہیں اور جو چیز تیرے پاس نہیں، اس کی بیع بھی جائز نہیں۔‘‘
تشریح : 1) ایسی چیز جو فروخت کرنے والے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا شرعاََ نا جائز اور حرام ہے۔ ہمارے ہاں اکثر دکاندار حضرات، اپنی ’’گاہکی‘‘ پکی کرنے کے لیے اس قسم کی قبیح حرکات کا ارتکاب عام طور پر کرتے رہتے ہیں، حالانکہ شریعتِ مطہرہ نے اس قسم کے ’’تعاون‘‘ کو نائز قرار دیا ہے۔ بعض دکاندار اس سے بھی ایک قدم آگے چلے جاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ جو چیز ان کے پاس نہیں ہوتی آنے والے سے اس کی قیمت لے لیتے ہیں اور چند دن بعد چیز لا دینے کا وعدہ کر لیتے ہیں۔ یہ پہلی صورت سے بھی زیادہ خطر ناک صورت ہے، اس لیے کہ یہ معلوم ہی نہیں کہ مطلوبہ چیز ملے گی یا نہیں؟ اگر ملے گی تو گاہک کو پسند آئے گی یا نہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں۔ پسند آ جانے کی صورت میں قیمت کی کمی بیشی کا معاملہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ بنا بریں شریعت مطہرہ کی ہدایات کے مطابق ایسی ہر بیع سے بچنا چاہیے جو شر فساد کا ذریعہ بن سکتی ہو۔ 2(یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع سے روکتی ہے جو قرض لینے یا دینے کی شرط پر کی جائے، نیز یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع کو بھی حرام ٹھہراتی ہے جسے دو شرطوں کے ساتھ معلق کر دیا جائے۔ 3(’’قرض اور بیع‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض بیع کی شرط پر ہو۔ اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے میں تجھے تب قرض دوں گا کہ یو مجھ سے فلاں چیز اتنے کی خریدے۔ یا بیع قرض شرط پر ہو، اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں تجھ سے فلاں چیز خریدتا ہوں اس شرط پر کہ تو مجھے قرض دے۔ ان صورتوں میں چونکہ قرض سے مفاد حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ سود ہے، اس لیے ان صورتوں سے منع فرما دیا گیا۔4( ’’بیع میں دو شرطیں‘‘ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے: میں تجھے فلاں چیزا نقد دس روپے میں اور ادھار بارہ روپے میں دیتا ہوں اور معاملہ کسی ایک شرط پر طے نہ ہو تو یہ سود ہے، البتہ کسی ایک شرط پر معاملہ طر ہو جائے، مثلا: گاہک ادھار بارہ روپے میں لے جائے یا نقد دس روپے میں لے جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اب ایک شرط رہ گئی، دو نہ رہیں۔ نقد اور ادھار بھاؤ میں فرق فطری ہے جیسے تھوک اور پر چون بھاؤ میں فرق، لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں، نیز یکمشت ادائیگی اور قسطوں والی ادائیگی میں فرق بھی اسی طرح ہے۔ 5(’’جو چیز تیرے پاس نہیں‘‘ مثلاََ: غلام بھاگ گیا ہے تو اس کو پکڑنے سے پہلے اسے بیچا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح کسی کی چیز بھی نہیں بیچی جا سکتی۔ اسی طرح غلہ وغیرہ قبضے میں لینے سے پہلے بیچنا منع ہے، البتہ اگر کوئی چیز بذات خود معین نہ ہو بلکہ اس کی صفات معین کر لی جائیں تو چیز موجود نہ ہونے کے باوجود اس کی بیع ہو سکتی ہے، مثلاََ کسی سے کہا جائے کہ میں گندم کی کٹائی کے موقع پر تجھ سے فلاں قسم کی بیس من گندم اتنے بھاؤ سے لوں گا اور رقم بھی اسے ادا کر دے، خواہ اس کے پاس گندم یا گندم کا کھیت موجود نہ ہو بلکہ خواہ اس کے پاس سرے سے زمین ہی نہ ہو کیونکہ وہ بازار سے گندم خرید کر مہیا کر سکتا ہے، البتہ اگر کہا جائے کہ فلاں کھیت کی گندم خریدتا ہوں جبکہ اس کھیت میں گندم ابھی پکی نہ ہو یا اس کھیت میں گندم بیجی ہی نہ گئی ہو تو یہ بیع درست نہیں کیونکہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کھیت سے گندم پیدا ہو گی۔ اگر پیدا ہو گی کیسی پیدا ہو گی؟ ابہام والی بیع درست نہیں، جیسے اڑتے میعن پرندے کی بیع یا پانی میں تیرتی معین مچھلی کی بیع درست نہیں۔ ابہام کے علاوہ ان میں ’’پاس نہ ہونے والی‘‘ خرابی بھی ہے۔ 1) ایسی چیز جو فروخت کرنے والے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا شرعاََ نا جائز اور حرام ہے۔ ہمارے ہاں اکثر دکاندار حضرات، اپنی ’’گاہکی‘‘ پکی کرنے کے لیے اس قسم کی قبیح حرکات کا ارتکاب عام طور پر کرتے رہتے ہیں، حالانکہ شریعتِ مطہرہ نے اس قسم کے ’’تعاون‘‘ کو نائز قرار دیا ہے۔ بعض دکاندار اس سے بھی ایک قدم آگے چلے جاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ جو چیز ان کے پاس نہیں ہوتی آنے والے سے اس کی قیمت لے لیتے ہیں اور چند دن بعد چیز لا دینے کا وعدہ کر لیتے ہیں۔ یہ پہلی صورت سے بھی زیادہ خطر ناک صورت ہے، اس لیے کہ یہ معلوم ہی نہیں کہ مطلوبہ چیز ملے گی یا نہیں؟ اگر ملے گی تو گاہک کو پسند آئے گی یا نہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں۔ پسند آ جانے کی صورت میں قیمت کی کمی بیشی کا معاملہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ بنا بریں شریعت مطہرہ کی ہدایات کے مطابق ایسی ہر بیع سے بچنا چاہیے جو شر فساد کا ذریعہ بن سکتی ہو۔ 2(یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع سے روکتی ہے جو قرض لینے یا دینے کی شرط پر کی جائے، نیز یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع کو بھی حرام ٹھہراتی ہے جسے دو شرطوں کے ساتھ معلق کر دیا جائے۔ 3(’’قرض اور بیع‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض بیع کی شرط پر ہو۔ اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے میں تجھے تب قرض دوں گا کہ یو مجھ سے فلاں چیز اتنے کی خریدے۔ یا بیع قرض شرط پر ہو، اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں تجھ سے فلاں چیز خریدتا ہوں اس شرط پر کہ تو مجھے قرض دے۔ ان صورتوں میں چونکہ قرض سے مفاد حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ سود ہے، اس لیے ان صورتوں سے منع فرما دیا گیا۔4( ’’بیع میں دو شرطیں‘‘ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے: میں تجھے فلاں چیزا نقد دس روپے میں اور ادھار بارہ روپے میں دیتا ہوں اور معاملہ کسی ایک شرط پر طے نہ ہو تو یہ سود ہے، البتہ کسی ایک شرط پر معاملہ طر ہو جائے، مثلا: گاہک ادھار بارہ روپے میں لے جائے یا نقد دس روپے میں لے جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اب ایک شرط رہ گئی، دو نہ رہیں۔ نقد اور ادھار بھاؤ میں فرق فطری ہے جیسے تھوک اور پر چون بھاؤ میں فرق، لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں، نیز یکمشت ادائیگی اور قسطوں والی ادائیگی میں فرق بھی اسی طرح ہے۔ 5(’’جو چیز تیرے پاس نہیں‘‘ مثلاََ: غلام بھاگ گیا ہے تو اس کو پکڑنے سے پہلے اسے بیچا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح کسی کی چیز بھی نہیں بیچی جا سکتی۔ اسی طرح غلہ وغیرہ قبضے میں لینے سے پہلے بیچنا منع ہے، البتہ اگر کوئی چیز بذات خود معین نہ ہو بلکہ اس کی صفات معین کر لی جائیں تو چیز موجود نہ ہونے کے باوجود اس کی بیع ہو سکتی ہے، مثلاََ کسی سے کہا جائے کہ میں گندم کی کٹائی کے موقع پر تجھ سے فلاں قسم کی بیس من گندم اتنے بھاؤ سے لوں گا اور رقم بھی اسے ادا کر دے، خواہ اس کے پاس گندم یا گندم کا کھیت موجود نہ ہو بلکہ خواہ اس کے پاس سرے سے زمین ہی نہ ہو کیونکہ وہ بازار سے گندم خرید کر مہیا کر سکتا ہے، البتہ اگر کہا جائے کہ فلاں کھیت کی گندم خریدتا ہوں جبکہ اس کھیت میں گندم ابھی پکی نہ ہو یا اس کھیت میں گندم بیجی ہی نہ گئی ہو تو یہ بیع درست نہیں کیونکہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کھیت سے گندم پیدا ہو گی۔ اگر پیدا ہو گی کیسی پیدا ہو گی؟ ابہام والی بیع درست نہیں، جیسے اڑتے میعن پرندے کی بیع یا پانی میں تیرتی معین مچھلی کی بیع درست نہیں۔ ابہام کے علاوہ ان میں ’’پاس نہ ہونے والی‘‘ خرابی بھی ہے۔