سنن النسائي - حدیث 4599

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4599

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: غلہ قبضے میں لینے سے پہلے بیچنا ( منع ہے) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو آدمی غلہ (غذائی جنس) خریدے، وہ کسی کو فروخت نہ کرے حتی کہ اسے (پورا پورا) اپنے قبضے میں لے لے۔‘‘
تشریح : (۱) جب کوئی شخص غذائی اجناس خریدے تو اسے اس وقت تک آگے نہیں بیچ سکتا جب تک وہ اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں نہ لے لے۔ اگر وہ مکیل چیز ہے تو اس کا ماپ پورا کرے اور اگر وہ موزون ہے تو اس کا وزن پورا کر لے۔ اگر ماپے تو لے اور قبضے میں لیے بغیر ہی بیچے گا تو شرعاً یہ کام ناجائز اور احرام ہوگا۔ باب کے تحت درج تمام احادیث اس مسئلے کی پوری پوری وضاحت کر رہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں آج کل یہ وبا عام ہے کہ تاجر لوگ عموماً سودے پر سودا کیے جاتے ہیں جبکہ اصل چیز (مبیع) ایک ہی جگہ کسی سٹور وغیرہ میں پڑی رہتی ہے، کوئی خریدار اسے دیکھتا ہے نہ اس کا وزن یا کیل (ماپ تول) ہی معلوم کرتا ہے بلکہ اسے آگے سے آگے فروخت کیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنے پیسوں ہی پر نفع پہ نفع لیے جاتے ہیں، چيز کو دیکھنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور نہ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مبیع چیز درست حالت میں ہے یا خراب ہو چکی ہے؟ غرض کسی کو کچھ علم نہیں ہوتا لیکن چیز آگے بک رہی ہوتی ہے بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخری خریدار کو نقصان ہوتا ہے اور یہی چیز باہمی جھگڑے فساد کا باعث بنتی ہے۔ شریعت مطہرہ کا حکم بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ جب کوئی شخص غذائی جنس، یعنی غلہ وغیرہ خریدے تو اسے چاہیے کہ اس چیز کو وہاں سے اٹھا کر اپنے قبضے میں کر لے، اور کسی دوسری جگہ اسے فروخت کر دے۔ (۲) اس حدیث میں یہ حکم صرف غلے کے بارے میں ہے۔ امام نسائی کا ذہن بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ فروخت کے لیے قبضے کی شرط صرف غلے میں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ہر چیز میں فروخت سے پہلے قبضہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ زمین ومکان کے علاوہ تمام اشیاء میں اس حکم کو رائج فرماتے ہیں۔ گویا انھوں نے منقولہ وغیرہ منقول اشیاء میں فرق کیا ہے کہ منقولہ میں قبضہ ضروری ہے۔ باقی رہی جائیداد غیر منقولہ تو اس کو کون سا اٹھایا یا منتقل کیا جا سکتا ہے کہ اس پر قبضے کی قید ضروری ہو۔ (۳) بیچنے سے پہلے قبضے کی قید لگانے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ قبضے میں لینے سے مال کی جانچ پڑتال ہو جائے، اس کی اصل کیفیت معلوم ہو جائے، نیز خریدار چیز کے خریدنے کے بعد کچھ محنت بھی کرے، مثلاً: وہ غلہ وہاں سے اٹھا کر اپنی دکان میں لے جائے۔ اگر وہ ڈھیر تو لا نہیں گیا تھا تو اس کو تولے تاکہ یہ محنت اس منافع کا جواز بن سکے جو وہ بیچ کر حاصل کرے گا۔ اگر کسی نے کوئی چیز خرید کر اسی جگہ پڑی کی پڑی بیچ دی تو گویا اس نے پیسہ لگانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا اور تھوڑا پیسہ لگا کر زیادہ پیسہ کمایا۔ یہ سود کے مشابہ ہے۔ کسی کو پیسہ دیا، پھر کچھ عرصے کے بعد زیادہ لے لیا۔ اسلام بلا محنت کمائی کو جوا اور سود قرار دیتا ہے۔ حلال کی کمائی وہی ہے جو محنت اور کام کے عوض ہو۔ رقم پر سود لینا، بانڈ خرید کر یا کسی اور طریقے سے (قرعہ اندازی کے ذریعے سے) انعام حاصل کرنا یہ سب حرام ہیں کیونکہ محنت سے خالی ہیں۔ (۱) جب کوئی شخص غذائی اجناس خریدے تو اسے اس وقت تک آگے نہیں بیچ سکتا جب تک وہ اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں نہ لے لے۔ اگر وہ مکیل چیز ہے تو اس کا ماپ پورا کرے اور اگر وہ موزون ہے تو اس کا وزن پورا کر لے۔ اگر ماپے تو لے اور قبضے میں لیے بغیر ہی بیچے گا تو شرعاً یہ کام ناجائز اور احرام ہوگا۔ باب کے تحت درج تمام احادیث اس مسئلے کی پوری پوری وضاحت کر رہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں آج کل یہ وبا عام ہے کہ تاجر لوگ عموماً سودے پر سودا کیے جاتے ہیں جبکہ اصل چیز (مبیع) ایک ہی جگہ کسی سٹور وغیرہ میں پڑی رہتی ہے، کوئی خریدار اسے دیکھتا ہے نہ اس کا وزن یا کیل (ماپ تول) ہی معلوم کرتا ہے بلکہ اسے آگے سے آگے فروخت کیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنے پیسوں ہی پر نفع پہ نفع لیے جاتے ہیں، چيز کو دیکھنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور نہ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مبیع چیز درست حالت میں ہے یا خراب ہو چکی ہے؟ غرض کسی کو کچھ علم نہیں ہوتا لیکن چیز آگے بک رہی ہوتی ہے بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخری خریدار کو نقصان ہوتا ہے اور یہی چیز باہمی جھگڑے فساد کا باعث بنتی ہے۔ شریعت مطہرہ کا حکم بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ جب کوئی شخص غذائی جنس، یعنی غلہ وغیرہ خریدے تو اسے چاہیے کہ اس چیز کو وہاں سے اٹھا کر اپنے قبضے میں کر لے، اور کسی دوسری جگہ اسے فروخت کر دے۔ (۲) اس حدیث میں یہ حکم صرف غلے کے بارے میں ہے۔ امام نسائی کا ذہن بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ فروخت کے لیے قبضے کی شرط صرف غلے میں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ہر چیز میں فروخت سے پہلے قبضہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ زمین ومکان کے علاوہ تمام اشیاء میں اس حکم کو رائج فرماتے ہیں۔ گویا انھوں نے منقولہ وغیرہ منقول اشیاء میں فرق کیا ہے کہ منقولہ میں قبضہ ضروری ہے۔ باقی رہی جائیداد غیر منقولہ تو اس کو کون سا اٹھایا یا منتقل کیا جا سکتا ہے کہ اس پر قبضے کی قید ضروری ہو۔ (۳) بیچنے سے پہلے قبضے کی قید لگانے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ قبضے میں لینے سے مال کی جانچ پڑتال ہو جائے، اس کی اصل کیفیت معلوم ہو جائے، نیز خریدار چیز کے خریدنے کے بعد کچھ محنت بھی کرے، مثلاً: وہ غلہ وہاں سے اٹھا کر اپنی دکان میں لے جائے۔ اگر وہ ڈھیر تو لا نہیں گیا تھا تو اس کو تولے تاکہ یہ محنت اس منافع کا جواز بن سکے جو وہ بیچ کر حاصل کرے گا۔ اگر کسی نے کوئی چیز خرید کر اسی جگہ پڑی کی پڑی بیچ دی تو گویا اس نے پیسہ لگانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا اور تھوڑا پیسہ لگا کر زیادہ پیسہ کمایا۔ یہ سود کے مشابہ ہے۔ کسی کو پیسہ دیا، پھر کچھ عرصے کے بعد زیادہ لے لیا۔ اسلام بلا محنت کمائی کو جوا اور سود قرار دیتا ہے۔ حلال کی کمائی وہی ہے جو محنت اور کام کے عوض ہو۔ رقم پر سود لینا، بانڈ خرید کر یا کسی اور طریقے سے (قرعہ اندازی کے ذریعے سے) انعام حاصل کرنا یہ سب حرام ہیں کیونکہ محنت سے خالی ہیں۔