سنن النسائي - حدیث 4596

كِتَابُ الْبُيُوعِ الرُّجْحَانُ فِي الْوَزْنِ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَفَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنْ هَجَرَ فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِمِنًى وَوَزَّانٌ يَزِنُ بِالْأَجْرِ فَاشْتَرَى مِنَّا سَرَاوِيلَ فَقَالَ لِلْوَزَّانِ زِنْ وَأَرْجِحْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4596

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: تولتے وقت جھکا کر دینا حضرت سوید بن قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور مخرمہ عبدی علاقہ ہجر سے (بیچنے کے لیے) کپڑے لائے۔ رسول اللہ ﷺ مقام منیٰ میں ہمارے پاس تشریف لائے اور ایک تولنے والا اجرت پر تول رہا تھا۔ آپ نے ہم سے ایک شلوار خریدی، پھر تولنے والے سے فرمایا: ’’(قیمت) تول اور جھکا کر دے۔‘‘
تشریح : (۱) سودا دیتے وقت کچھ نہ کچھ زیادہ دینا چاہیے، یعنی تولتے وقت ترازو جھکتا ہونا چاہیے۔ باہمی خیر خواہی، ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے چہ جائیکہ ڈنڈی ماری جائے، یہ حرام ہے۔ اس طرح برکت اٹھ جاتی ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ۔ (۲) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ کپڑے کی تجارت شرعاً جائز ہے اور یہ حلال روزی کمانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے، نیز دوسرے ممالک سے مال منگوانے کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے، یعنی درآمد و برآمد کا کاروبار، شرعاً درست ہے۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ جس طرح جھکتا تول کر دینے کے استحباب پر دلالت کرتی ہے بعینہٖ اسی طرح کم تول کر دینے کی کراہت اور اس کے غیر مشروع ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اس طرح انسان کی حق تلفی ہوتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے۔ (۴) ’’اجرت پر تول رہا تھا۔‘‘ یعنی قیمت میں سونا چاندی تول رہا تھا اور وہ تولنے کے پیسے لیتا تھا۔ اس سے خریدار کو ادائیگی کی سہولت ہوتی تھی کیونکہ قیمت کا تول خریدار کے ذمہ ہوتا ہے جبکہ سامانِ فروخت کا تول بیچنے والے کے ذمے۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ تولنے والا قیمت تول تول کر لے رہا تھا۔ اس صورت میں بیچنے والوں نے اسے مقرر کیا ہوگا۔ (۵) ’’شلوار خریدی‘‘ ظاہر ہے پہننے کے لیے خریدی ہوگی، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ گھر کے کسی اور فرد کے لیے خریدی ہو۔ آپ سے شلوار کی تعریف ثابت ہے کہ یہ پردے والا لباس ہے۔ (۶) ’’جھکا کر دے‘‘ تاکہ کمی کا احتمال نہ رہے۔ اور یہ حکم وزن کے علاوہ ماپ اور پیمائش میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ دینے والے کو چاہیے کہ ان میں بھی کچھ زائد ہی دے۔ (۱) سودا دیتے وقت کچھ نہ کچھ زیادہ دینا چاہیے، یعنی تولتے وقت ترازو جھکتا ہونا چاہیے۔ باہمی خیر خواہی، ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے چہ جائیکہ ڈنڈی ماری جائے، یہ حرام ہے۔ اس طرح برکت اٹھ جاتی ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ۔ (۲) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ کپڑے کی تجارت شرعاً جائز ہے اور یہ حلال روزی کمانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے، نیز دوسرے ممالک سے مال منگوانے کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے، یعنی درآمد و برآمد کا کاروبار، شرعاً درست ہے۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ جس طرح جھکتا تول کر دینے کے استحباب پر دلالت کرتی ہے بعینہٖ اسی طرح کم تول کر دینے کی کراہت اور اس کے غیر مشروع ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اس طرح انسان کی حق تلفی ہوتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے۔ (۴) ’’اجرت پر تول رہا تھا۔‘‘ یعنی قیمت میں سونا چاندی تول رہا تھا اور وہ تولنے کے پیسے لیتا تھا۔ اس سے خریدار کو ادائیگی کی سہولت ہوتی تھی کیونکہ قیمت کا تول خریدار کے ذمہ ہوتا ہے جبکہ سامانِ فروخت کا تول بیچنے والے کے ذمے۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ تولنے والا قیمت تول تول کر لے رہا تھا۔ اس صورت میں بیچنے والوں نے اسے مقرر کیا ہوگا۔ (۵) ’’شلوار خریدی‘‘ ظاہر ہے پہننے کے لیے خریدی ہوگی، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ گھر کے کسی اور فرد کے لیے خریدی ہو۔ آپ سے شلوار کی تعریف ثابت ہے کہ یہ پردے والا لباس ہے۔ (۶) ’’جھکا کر دے‘‘ تاکہ کمی کا احتمال نہ رہے۔ اور یہ حکم وزن کے علاوہ ماپ اور پیمائش میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ دینے والے کو چاہیے کہ ان میں بھی کچھ زائد ہی دے۔