سنن النسائي - حدیث 4592

كِتَابُ الْبُيُوعِ أَخْذُ الْوَرِقِ مِنَ الذَّهَبِ، وَالذَّهَبِ مِنَ الْوَرِقِ، وَذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ ابْنِ عُمَرَ فِيهِ لم أجده في الصحيح و لا في الضعيف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ نَافِعٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ بِمِثْلِهِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ كَذَا وَجَدْتُهُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4592

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: سونے کی جگہ چاندی لینا اور چاندی کی جگہ سونا لینا اور حضرت ابن عمرؓ کی روایت کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر حضرت سعید بن جبیر سے اسی قسم کا قول منقول ہے۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی رحمہ اللہ ) بیان کرتے ہیں کہ اس جگہ میں نے ایسا ہی پایا ہے۔
تشریح : التعلیقات السلفیہ میں ہے کہ شاید امام نسائی رحمہ اللہ اس قول کا ضعف ظاہر فرما رہے ہیں کیونکہ اس سے پہلے روایت نمبر ۴۵۸۸ میں تو گزرا ہے کہ وہ عا م حالات میں بھی دراہم کی جگہ دینار اور دینار کی جگہ دراہم لینا پسند نہیں فرماتے تھے چہ جائیکہ وہ قرض کی صورت میں یہ جائز قرار دیں۔ واللہ اعلم۔ صاحب ذخیرۃ العقبی فرماتے ہیں کہ یہ سند تین احادیث پہلے گزر چکی ہے۔ اس جگہ دینار اور دیناروں کی جگہ درہم لینا ناپسند کرتے تھے جبکہ اس روایت میں ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اگرچہ وہ قرض ہی کے کیوں نہ ہوں۔ شارح فرماتے ہیں کہ وہ روایت جس میں اس طرح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا گیا، سابقہ روایت کی نسبت زیادہ راجح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روایت، امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی بیان کردہ روایت کے موافق ہے جس میں عدم کراہت کا بیان ہے۔ واللہ اعلم! دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائی للاتیوبی: ۳۵/ ۲۰) التعلیقات السلفیہ میں ہے کہ شاید امام نسائی رحمہ اللہ اس قول کا ضعف ظاہر فرما رہے ہیں کیونکہ اس سے پہلے روایت نمبر ۴۵۸۸ میں تو گزرا ہے کہ وہ عا م حالات میں بھی دراہم کی جگہ دینار اور دینار کی جگہ دراہم لینا پسند نہیں فرماتے تھے چہ جائیکہ وہ قرض کی صورت میں یہ جائز قرار دیں۔ واللہ اعلم۔ صاحب ذخیرۃ العقبی فرماتے ہیں کہ یہ سند تین احادیث پہلے گزر چکی ہے۔ اس جگہ دینار اور دیناروں کی جگہ درہم لینا ناپسند کرتے تھے جبکہ اس روایت میں ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اگرچہ وہ قرض ہی کے کیوں نہ ہوں۔ شارح فرماتے ہیں کہ وہ روایت جس میں اس طرح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا گیا، سابقہ روایت کی نسبت زیادہ راجح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روایت، امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی بیان کردہ روایت کے موافق ہے جس میں عدم کراہت کا بیان ہے۔ واللہ اعلم! دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائی للاتیوبی: ۳۵/ ۲۰)