سنن النسائي - حدیث 459

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَاب كَمْ فُرِضَتْ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ يَقُولُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ نَسْمَعُ دَوِيَّ صَوْتِهِ وَلَا نَفْهَمُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنْ الْإِسْلَامِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ قَالَ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ قَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ قَالَ وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ قَالَ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ قَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ قَالَ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا قَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 459

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل دن اور رات میں کتنی نمازیں فرض ہیں؟ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نجد والوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پس آیا۔ اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ تو سنتے تھے لیکن ہمیں اس کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی حتیٰ کہ وہ قریب آگیا تو ناگہاں وہ اسلام کے بارے میں پوچھنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں۔‘‘ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی نما ز مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، مگر یہ کہ تو نفل پڑھے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’اور ماہ رمضان کے روزے ہیں۔‘‘ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزہ مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، مگر یہ کہ تو نفل روزے رکھے۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےا س کے لیے زکاۃ کا ذکر فرمایا۔ اس نے کہا: کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ (مالی صدقہ) فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، مگر یہ کہ تو نفلی صدقہ دے۔‘‘ وہ آدمی واپس مڑا اور کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! نہ اس سے زائد کروں گا نہ اس میں کمی کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہ سچا ہوا تو کامیاب رہا۔‘‘
تشریح : (۱)’’بھنبھناہٹ سنتے تھے۔‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گفتگو دھیمی آواز میں کررہا تھا۔ (۲)چونکہ وہ سائل پہلے سے مسلمان تھا، شہادتین کا اقرار کرچکا تھا، اس لیے آپ نے اس کو دوسرے ارکان اسلام بیان فرمائے۔ حج کا ذکر نہیں فرمایا کہ وہ ابھی تک فرض نہ ہوا تھا۔ محقق بات یہ ہے کہ حج ۹ہجری میں فرض ہوا۔ (۳)’’مگر یہ کہ تو نفل کرے۔‘‘ گویا اصل سوال فرائض کے بارے ہی میں تھا۔ فلاح کا مدار بھی فرائض ہی پر ہے، باقی رہے سنن و نوافل، تو وہ فرائض کی تکمیل کے لیے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کمی سنن و نوافل سے پوری وہتی ہے۔ شاید ہی کوئی شخص فرائض کی مکمل ادائیگی کا دعویٰ کرسکے، اس لیے سنن و نوافل خصوصاً رواتب کی پابندی بڑی اہمیت کی ھامل ہے، اس لیے بھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پابندی فرمائی ہے اور ہمارے لیے آپ کی سنن کی اتباع لازم ہے، نیز رواتب (فرض نماز کی اگلی پچھلی سنتیں) فرض کے تابع ہیں، الگ نہیں، لہٰذا سفر، مرض اور انتہائی مصروفیت کے علاوہ ان پر دوام کیا جائے۔ باقی رہا بعض لوگوں کا یہ قول کہ ’’نفل نماز یا روزہ شروع کرنے سے بھی واجب ہوجاتا ہے کیونکہ راستے میں چھوڑ دینے سے بطلان عمل ہوگا اور قرآن مجید میں ہے: (ولاتبطلوا اعمالکم) (محمد۴۷:۳۳) تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزعمل اور احادیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی روزہ مکمل کرنے سے پہلے افطار کیا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:۱۱۵۴) اس لیے جمہور اہل علم کے مطابق شروع کرنے سے نفل فرض نہیں بن جاتا، البتہ تکمیل بہتر ہے۔ باقی رہی آیت مبارکہ تو اس کا سیاق و سباق بعض لوگوں (احناف) والا معنی لینے سے مانع ہے کیونکہ اس آیت میں خلاف سنت کام کرنے کو باطل کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱)’’بھنبھناہٹ سنتے تھے۔‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گفتگو دھیمی آواز میں کررہا تھا۔ (۲)چونکہ وہ سائل پہلے سے مسلمان تھا، شہادتین کا اقرار کرچکا تھا، اس لیے آپ نے اس کو دوسرے ارکان اسلام بیان فرمائے۔ حج کا ذکر نہیں فرمایا کہ وہ ابھی تک فرض نہ ہوا تھا۔ محقق بات یہ ہے کہ حج ۹ہجری میں فرض ہوا۔ (۳)’’مگر یہ کہ تو نفل کرے۔‘‘ گویا اصل سوال فرائض کے بارے ہی میں تھا۔ فلاح کا مدار بھی فرائض ہی پر ہے، باقی رہے سنن و نوافل، تو وہ فرائض کی تکمیل کے لیے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کمی سنن و نوافل سے پوری وہتی ہے۔ شاید ہی کوئی شخص فرائض کی مکمل ادائیگی کا دعویٰ کرسکے، اس لیے سنن و نوافل خصوصاً رواتب کی پابندی بڑی اہمیت کی ھامل ہے، اس لیے بھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پابندی فرمائی ہے اور ہمارے لیے آپ کی سنن کی اتباع لازم ہے، نیز رواتب (فرض نماز کی اگلی پچھلی سنتیں) فرض کے تابع ہیں، الگ نہیں، لہٰذا سفر، مرض اور انتہائی مصروفیت کے علاوہ ان پر دوام کیا جائے۔ باقی رہا بعض لوگوں کا یہ قول کہ ’’نفل نماز یا روزہ شروع کرنے سے بھی واجب ہوجاتا ہے کیونکہ راستے میں چھوڑ دینے سے بطلان عمل ہوگا اور قرآن مجید میں ہے: (ولاتبطلوا اعمالکم) (محمد۴۷:۳۳) تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزعمل اور احادیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی روزہ مکمل کرنے سے پہلے افطار کیا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:۱۱۵۴) اس لیے جمہور اہل علم کے مطابق شروع کرنے سے نفل فرض نہیں بن جاتا، البتہ تکمیل بہتر ہے۔ باقی رہی آیت مبارکہ تو اس کا سیاق و سباق بعض لوگوں (احناف) والا معنی لینے سے مانع ہے کیونکہ اس آیت میں خلاف سنت کام کرنے کو باطل کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔