سنن النسائي - حدیث 4585

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الْفِضَّةِ بِالذَّهَبِ وَبَيْعُ الذَّهَبِ بِالْفِضَّةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ أَبِي صَالِحٍ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ أَرَأَيْتَ هَذَا الَّذِي تَقُولُ أَشَيْئًا وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ شَيْئًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا وَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَخْبَرَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4585

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: چاندی کی سونے کے عوض اور سونے کی چاندی کے ساتھ بیع کرنا حضرت ابو صالح سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا کہ میں نے حضرت ابن عباسؓ سے کہا: یہ جو آپ کہہ رہے ہیں کیا آپ نے اسے کتاب اللہ میں پایا ہے یا رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ انھوں نے فرمای: نہ میں نے یہ بات اللہ عزوجل کی کتاب میں پائی ہے نہ رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے بلکہ مجھے تو حضرت اسامہ بن زیدؓ نے بتلایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سود صرف ادھار میں ہے۔‘‘
تشریح : (۱) چاندی کو سونے کے عوض یا سونے کو چاندی کے عوض خریدا بیچا جا سکتا ہے بشرطیکہ فریقین (دونوں) کی طرف سے نقد ادائیگی ہو۔ (۲) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین کو، دینی مسئلے کی بابت دوسرے عالم دین سے دلیل کے ساتھ بات کرنی چاہیے اور ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عالم دین سے معلوم کرے کہ آپ نے جو مسئلہ بیان فرمایا ہے یہ قرآن مجید میں ہے یا حدیث رسول سے ثابت ہے (کیونکہ احکام شریعت کا اصل ماخذ قرآن وسنت ہے)۔ مزید برآں مسئول عنہ (جس سے ایسا سوال کیا جائے) کو اس قسم کے سوال، یعنی دلیل طلب کرنے کو اپنی ’’شان میں گستاخی‘‘ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بلا تاخیر جواب دے دینا چاہیے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فوراً جواب دیا کہ مجھے اسامہ بن زیدؓ نے یہ خبر دی ہے۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ عالم دین کا فرض ہے کہ وہ اجتماعیت سے ہٹے ہوئے شخص کو اجتماعیت کی طرف لائے اور یہ فریضہ کتاب وسنت کے دلائل کے ذریعے سے سرانجام دیا جانا چاہیے۔ (۴) ’’یہ جو آپ کہہ رہے ہیں‘‘ دراصل حضرت ابن عباسؓ کو حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت سے یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ سونے کو سونے کے بدلے اور چاندی کو چاندی کے بدلے کم و بیش بھی خریدا بیچا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ادھار نہ ہو، حالانکہ یہ حدیث ایک مخصوص صورت کے بارے میں ہے، یعنی جب طرفین کی جنس مختلف ہو، مثلاً: چاندی سونے کے بدلے ہو جیسا کہ اس کی طرف اوپر والی حدیث(۴۵۸۴) میں اشارہ ہو چکا ہے۔ کسی ایک روایت سے ایسے معنی اخذ نہیں کیے جا سکتے جو دیگر صریح، مفصل اور کثیر روایات کے خلاف ہوں۔ بعض احادیث مختصر ہوتی ہیں۔ ان کے معنی سمجھنے کے لیے دیگر تفصیلی روایات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ (۱) چاندی کو سونے کے عوض یا سونے کو چاندی کے عوض خریدا بیچا جا سکتا ہے بشرطیکہ فریقین (دونوں) کی طرف سے نقد ادائیگی ہو۔ (۲) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین کو، دینی مسئلے کی بابت دوسرے عالم دین سے دلیل کے ساتھ بات کرنی چاہیے اور ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عالم دین سے معلوم کرے کہ آپ نے جو مسئلہ بیان فرمایا ہے یہ قرآن مجید میں ہے یا حدیث رسول سے ثابت ہے (کیونکہ احکام شریعت کا اصل ماخذ قرآن وسنت ہے)۔ مزید برآں مسئول عنہ (جس سے ایسا سوال کیا جائے) کو اس قسم کے سوال، یعنی دلیل طلب کرنے کو اپنی ’’شان میں گستاخی‘‘ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بلا تاخیر جواب دے دینا چاہیے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فوراً جواب دیا کہ مجھے اسامہ بن زیدؓ نے یہ خبر دی ہے۔ (۳) یہ حدیث مبارکہ اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ عالم دین کا فرض ہے کہ وہ اجتماعیت سے ہٹے ہوئے شخص کو اجتماعیت کی طرف لائے اور یہ فریضہ کتاب وسنت کے دلائل کے ذریعے سے سرانجام دیا جانا چاہیے۔ (۴) ’’یہ جو آپ کہہ رہے ہیں‘‘ دراصل حضرت ابن عباسؓ کو حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت سے یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ سونے کو سونے کے بدلے اور چاندی کو چاندی کے بدلے کم و بیش بھی خریدا بیچا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ادھار نہ ہو، حالانکہ یہ حدیث ایک مخصوص صورت کے بارے میں ہے، یعنی جب طرفین کی جنس مختلف ہو، مثلاً: چاندی سونے کے بدلے ہو جیسا کہ اس کی طرف اوپر والی حدیث(۴۵۸۴) میں اشارہ ہو چکا ہے۔ کسی ایک روایت سے ایسے معنی اخذ نہیں کیے جا سکتے جو دیگر صریح، مفصل اور کثیر روایات کے خلاف ہوں۔ بعض احادیث مختصر ہوتی ہیں۔ ان کے معنی سمجھنے کے لیے دیگر تفصیلی روایات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔