سنن النسائي - حدیث 458

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَاب كَيْفَ فُرِضَتْ الصَّلَاةُ صحيح أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشُّعَيْثِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أَسِيدٍ أَنَّهُ قَالَ لِابْنِ عُمَرَ كَيْفَ تَقْصُرُ الصَّلَاةَ وَإِنَّمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانَا وَنَحْنُ ضُلَّالٌ فَعَلَّمَنَا فَكَانَ فِيمَا عَلَّمَنَا أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَنَا أَنْ نُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ فِي السَّفَرِ قَالَ الشُّعَيْثِيُّ وَكَانَ الزُّهْرِيُّ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 458

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل نماز کیسے فرض ہوئی؟ امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ آپ نماز کیسے قصر کرتے ہیں؟ جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (فلیس علیکم جناح ۔۔۔ ان خفتم) ’’تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم نماز قصر کرلو اگر تمھیں خوف ہو۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم گمراہ تھے۔ آپ نے ہمیں تعلیم دی۔ جو کچھ آپ نے سکھایا اس میں یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سفر میں دو رکعتیں پڑھیں۔ (محمد بن عبداللہ) شعیثی نے کہا: زہری یہ حدیث عبداللہ بن ابوبکر سے بیان کرتے تھے۔
تشریح : (۱)اعتراض یہ تھا کہ قرآن مجید میں قصر صلاۃ کے لیے خوف کی قید مذکور ہے جب کہ یہ لوگ بغیر خوف کے قصر کررہے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اصولی جواب دیا کہ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اصل ہے۔ قرآن مجید کا مطلب بھی وہی معتبر ہے جو آپ ارشاد فرمائیں کیونکہ قرآن مجید بھی تو آپ ہی لے کر آئے ہیں۔ آپ ہی اس کا صحیح مفہوم جانتے ہیں۔ آپ نے بارہاسفر میں قصر کی، حالانکہ کوئی خوف نہیں تھا، حتیٰ کہ حجۃ الوداع میں بھی قصر کی جب کہ آپ کی حکومت قائم ہوچکی تھی۔ (۲)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اصولی جواب کے علاوہ بھی جوابات دیے گئے ہیں، مثلاً ۱۔جب قصر کی آیت اتری، اس وقت خوف بھی تھا، لہٰذا آیت میں واقعہ کی مناسبت سے خوف کا ذکر کردیا گیا ورنہ یہ شرط مقصود نہ تھی، سفر ہی شرط تھا۔ ۲۔قرآن مجید میں صلاۃ خوف ہی کا ذکر ہے۔ صلاۃ سفر کا ذکر صرف احادیث میں ہے۔ قرآن مجید میں سفر کی نماز کا ذکر ہی نہیں۔ ۳۔(ان خفتم۔۔۔الخ) سے صلاۃ خوف کا ذکر ہے اور اس سے پہلے صلاۃ سفر مذکور ہے، گویا (ان خفتم) کا تعلق ماقبل سے نہیں مابعد سے ہے، دونوں الگ الگ جملے ہیں۔ (۳) امرنا سے مرادوجوبی حکم نہیں بلکہ استحبابی حکم مراد ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔ (۱)اعتراض یہ تھا کہ قرآن مجید میں قصر صلاۃ کے لیے خوف کی قید مذکور ہے جب کہ یہ لوگ بغیر خوف کے قصر کررہے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اصولی جواب دیا کہ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اصل ہے۔ قرآن مجید کا مطلب بھی وہی معتبر ہے جو آپ ارشاد فرمائیں کیونکہ قرآن مجید بھی تو آپ ہی لے کر آئے ہیں۔ آپ ہی اس کا صحیح مفہوم جانتے ہیں۔ آپ نے بارہاسفر میں قصر کی، حالانکہ کوئی خوف نہیں تھا، حتیٰ کہ حجۃ الوداع میں بھی قصر کی جب کہ آپ کی حکومت قائم ہوچکی تھی۔ (۲)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اصولی جواب کے علاوہ بھی جوابات دیے گئے ہیں، مثلاً ۱۔جب قصر کی آیت اتری، اس وقت خوف بھی تھا، لہٰذا آیت میں واقعہ کی مناسبت سے خوف کا ذکر کردیا گیا ورنہ یہ شرط مقصود نہ تھی، سفر ہی شرط تھا۔ ۲۔قرآن مجید میں صلاۃ خوف ہی کا ذکر ہے۔ صلاۃ سفر کا ذکر صرف احادیث میں ہے۔ قرآن مجید میں سفر کی نماز کا ذکر ہی نہیں۔ ۳۔(ان خفتم۔۔۔الخ) سے صلاۃ خوف کا ذکر ہے اور اس سے پہلے صلاۃ سفر مذکور ہے، گویا (ان خفتم) کا تعلق ماقبل سے نہیں مابعد سے ہے، دونوں الگ الگ جملے ہیں۔ (۳) امرنا سے مرادوجوبی حکم نہیں بلکہ استحبابی حکم مراد ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔