سنن النسائي - حدیث 4577

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الْقِلَادَةِ فِيهَا الْخَرَزُ، وَالذَّهَبُ بِالذَّهَبِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ اشْتَرَيْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ قِلَادَةً فِيهَا ذَهَبٌ وَخَرَزٌ بِاثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا فَفَصَّلْتُهَا فَوَجَدْتُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ اثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تُبَاعُ حَتَّى تُفَصَّلَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4577

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: ایسے ہار کو سونے کے عوض خریدنا جس میں سونے کے علاوہ موتی اور منکے بھی ہوں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے خیبر کے دن ایک ہار بارہ دینار کا خریدا جس میں سونے کے علاوہ موتی اور منکے بھی تھے۔ جب میں نے سونے اور موتی منکوں کو الگ الگ کیا تو اس سے بارہ دینار سے زائد سونا نکل آیا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’اس قسم کی چیز کو نہ بیچا جائے حتی کہ سونے وغیرہ کو الگ الگ کر لیا جائے۔‘‘
تشریح : (۱) مؤلف رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت کا مسئلہ بیان کرنا ہے جس میں سونے کے علاوہ موتی، نگینے اور منکے وغیرہ بھی ہون۔ اس کا حکم یہ ہے کہ سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت اس وقت تک حرام ہے جب تک اسے الگ الگ کر کے سونے کا وزن معلوم نہ کر لیا جائے۔ جب سونے کا وزن معلوم ہو جائے تو پھر اس سونے کے برابر سونا دیا جائے اور موتی نگینے اور منکے وغیرہ الگ کر کے ان کی قیمت دی جائے، یا جو بھی معاملہ طے ہو، اس کے مطابق کیا جائے۔ (۲) اگر تو ہار وغیرہ اس قسم کا ہو کہ اسے خراب کیے بغیر سونے کو موتیوں سے الگ کیا جا سکتا ہو تو الگ کرنے کے بعد ہر چیز کا الگ الگ سودا کیا جائے تاکہ سود کے شبہ سے حتی الامکان بچاؤ ہو سکے۔ اور اگر الگ الگ کرنے سے ہار خراب ہوتا ہو تو پھر سونے کے ہار کو چاندی، یعنی درہم کے عوض خریدا جائے اور چاندی کے ہار کو سونے، یعنی دینار کے عوض خریدا جائے جیسا کہ حدیث نمبر ۴۵۷۶ میں گزر چکا ہے۔ آج کل قیمت کرنسی نوٹوں کی صورت میں دی جاتی ہے، لہٰذا کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے، اور نہ الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض حضرات نے ایسے ہار کو الگ الگ کیے بغیر کسی بھی صورت میں بیچنے کی نفی کی ہے اور ظاہر الفاظ کو پیش کیا ہے مگر یہ تکلیف مالا یطاق ہے۔ اس طرح تو زیورات کا بیچنا ایک لا یَنْحَل مسلہ ہوگا۔ الفاظ کے ساتھ ساتھ شریعت کے مقاصد کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے ورنہ کبھی کبھی مضحکہ خیز نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔ (۱) مؤلف رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت کا مسئلہ بیان کرنا ہے جس میں سونے کے علاوہ موتی، نگینے اور منکے وغیرہ بھی ہون۔ اس کا حکم یہ ہے کہ سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت اس وقت تک حرام ہے جب تک اسے الگ الگ کر کے سونے کا وزن معلوم نہ کر لیا جائے۔ جب سونے کا وزن معلوم ہو جائے تو پھر اس سونے کے برابر سونا دیا جائے اور موتی نگینے اور منکے وغیرہ الگ کر کے ان کی قیمت دی جائے، یا جو بھی معاملہ طے ہو، اس کے مطابق کیا جائے۔ (۲) اگر تو ہار وغیرہ اس قسم کا ہو کہ اسے خراب کیے بغیر سونے کو موتیوں سے الگ کیا جا سکتا ہو تو الگ کرنے کے بعد ہر چیز کا الگ الگ سودا کیا جائے تاکہ سود کے شبہ سے حتی الامکان بچاؤ ہو سکے۔ اور اگر الگ الگ کرنے سے ہار خراب ہوتا ہو تو پھر سونے کے ہار کو چاندی، یعنی درہم کے عوض خریدا جائے اور چاندی کے ہار کو سونے، یعنی دینار کے عوض خریدا جائے جیسا کہ حدیث نمبر ۴۵۷۶ میں گزر چکا ہے۔ آج کل قیمت کرنسی نوٹوں کی صورت میں دی جاتی ہے، لہٰذا کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے، اور نہ الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض حضرات نے ایسے ہار کو الگ الگ کیے بغیر کسی بھی صورت میں بیچنے کی نفی کی ہے اور ظاہر الفاظ کو پیش کیا ہے مگر یہ تکلیف مالا یطاق ہے۔ اس طرح تو زیورات کا بیچنا ایک لا یَنْحَل مسلہ ہوگا۔ الفاظ کے ساتھ ساتھ شریعت کے مقاصد کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے ورنہ کبھی کبھی مضحکہ خیز نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔