سنن النسائي - حدیث 4564

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الْبُرِّ بِالْبُرِّ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَتِيكٍ قَالَا جَمَعَ الْمَنْزِلُ بَيْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَمُعَاوِيَةَ حَدَّثَهُمْ عُبَادَةُ قَالَ نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ بِالْوَرِقِ وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ قَالَ أَحَدُهُمَا وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ وَلَمْ يَقُلْهُ الْآخَرُ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ وَأَمَرَنَا أَنْ نَبِيعَ الذَّهَبَ بِالْوَرِقِ وَالْوَرِقَ بِالذَّهَبِ وَالْبُرَّ بِالشَّعِيرِ وَالشَّعِيرَ بِالْبُرِّ يَدًا بِيَدٍ كَيْفَ شِئْنَا قَالَ أَحَدُهُمَا فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4564

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: ۔ گندم کی گندم کے ساتھ بیع (کیسے ہونی چاہیے؟) حضرت مسلم بن یسار اور عبد اللہ بن عتیک سے روایت ہے کہ ایک منزل میں حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت معاویہ ؓ جمع ہوئے تو حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سونے کے بدلے سونے، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، کھجوروں کے بدلے کھجوریں… ان دونوں استادوں (مسلم بن یسار اور عبد اللہ بن عتیک) میں سے ایک نے (یہ بھی) کہا، جبکہ دوسرے نے یہ الفاظ نہیں کہے… اور نمک کے بدلے نمک کے سودے سے منع فرمایا الا یہ کہ وہ دونوں برابر ار نقد ہوں، البتہ ہمیں اجازت عطا فرمائی کہ ہم سونے کو چاندی جو سونے کے بدلے، گندم کو جو کے بدلے اور جو کو گندم کے بدلے جیسے چاہیں کم و بیش خریدو فروخت کر سکتے ہیں بشر طیکہ سودا نقد ہو۔ (جنس ایک ہونے کی صورت میں) جو شخص زیادہ دے یا زیادہ لے، اس نے سودی لین دین کیا۔
تشریح : 1)گندم کے بدلے گندم بیچنی شرعاََ جائز ہے بشر طیکہ دونوں طرف سے گندم برابر ہو، نیز فریقین اسے اسی مجلس میں اپنے اپنے قبضے میں بھی لے لیں۔2) اس حدیث مبارکہ مختلف طرق (سندیں) دیکھنے سے بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے جو عہد وفا باندھا تھا اسے نہ صرف نبھایا بلکہ وفا کا حق ادا کر دیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی اس کے تقاضے پورے کیے، خواہ اس ایفائے عہد سے ان کے کسی امیر کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو یا گواری محسوس ہوتی ہو۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی انھی جلیل القدر عظماء میں سے تھے جنھوں نے نبی ﷺ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے معالے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حدیث بیان کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک غزوے میں لوگوں کو بہت سی غنیمتیں حاصل ہوئیں۔ غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے۔ اس وقت ان لوگوں کے امیر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور انھوں نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو، وہ چاندی کے برتن جو بطور غنیمت ملے تھے، وہ برتن بیچ دے اور لوگوں کو بیت المال سے جو عطایا ملتے تھے جب وہ ملیں گے تو اس وقت ان چاندی کے برتنوں کی قیمت ان سے وصولی کر لی جائے گی۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ یہ سودا کرنا شروع کر دیا۔ سیدنا عبادہ بن صامت تک یہ بات پہنچی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ حدیث سنا دی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سونے چاندی کی بیع ادھار پر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ان کی خریدو فروخت نقد کی صورت میں ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے چاندی کے جو برتن ان سے خرید لیے تھے واپس کر دیے اور سودا ختم کر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنی ہوتیں، حالانکہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر پھر کھڑے ہو گئے اور وہی حدیث مبارکہ دوبارہ سنا دی جو انھوں نے پہلے سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ہم نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے وہ ضرور بیان کریں گے، خواہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتنا ہی نا گوار گزرے یا فرمایا کہ اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی ذلت محسوس کریں اور ساتھ ہی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ یہ مسئلہ بیان کرنے کی وجہ سے اگر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایک رات بھی نہ رہ سکوں تو مجھے اس کی قطعاََ کوئی پروا نہیں۔ میں نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سن رکھا ہے، وہ ضرور بیان کروں گا، خواہ آج کا کوئی حکمران اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے حق پر جو بھاری ذمہ داری عائد کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کھل کر بیان کریں، حق کو قطعاََ نہ چھپائیں، نیز عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے والیل بن جائیں اور دنیا میں بن کر رہیں۔3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنن کی تبلیغ کا خصوصی اہتمام کیا جائے علم رسول پھیلا یا جائے چاہے کوئی بڑے سے بڑے بڑا شخص اس کو نا پسند ہی کرتا ہو۔ حق بات برملا اور سب کے سامنے کہنی چاہیے۔4) حدیث مبارکہ سے مذکورہ اشیاء کی باہمی خرید و فروخت کا جواز بھی نکلتا ہے۔ ہم جنس اشیاء میں برابری اور تقابض کی شرط ہے۔ لیکن اگر جنس مختلف ہو جائے تو ان میں کمی بیشی تو جائز ہے لیکن سودے کا ہاتھوں ہاتھ ہونا شرط ہے۔5) اس حدیث مبارکہ سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو گندم اور جو، کو ایک ہی جنس شمار کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک جنس نہیں بلکہ دو مختلف جنسیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ الفاظ اس کی صریح دلیل ہیں، آپ نے فرمایا: ’’گندم کے عوض جو اور جو کے عوض گندم بیچ سکتے ہو جس طرح چاہو بشر طیکہ سودا نقدبہ نقد ہو، یعنی ادھار کسی طرف سے نہ ہو۔6)‘‘ مذکورہ چھ چیزوں میں کمی بیشی تو واقعی سود ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ان چھ کے علاوہ دوسری کون سی اشیاء میں کمی بیشی سود میں شمار ہو گی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تمام مکیلات و موزونات (جن چیزیں کھانے اور خوراک کے کام آتی ہیں) اس حکم کے تحت داخل ہیں بشر طیکہ ان کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے دونوں قیود کو ملحوظ رکھا ہے، یعنی وہ مکیلہ و موزون بھی ہوں خوراک بھی ہوں۔ اہل ظرہر کا موقف ہے کہ سود صرف ان مذکورہ چھ چیزوں میں منحصر ہے۔ ان کے علاوہ کسی بھی چیز میں کمی بیشی سود شمار نہیں ہو گی، مگر یہ بات عقلی طور پر قابل قبول نہیں کیونکہ شریعت کے احکام کسی نہ کسی مقصد کی خاطر لاگو ہوتے ہیں۔ مذکورہ چیزوں کی بیع کمی بیشی کے ساتھ روکنے میں ایک مقصد سادگی اور قناعت پسندی بھی ہے۔ ظاہر ہے اچھی گندم نا قص گندم کے مقابلے میں ملنے سے تو رہی۔ کوئی شخص بھی ردی کھجوروں کے مقابلے میں اعلیٰ قسم کی کھجوریں نہیں دے گا۔ مذکور قسم کی بیع سے روکنے کا یہ کا فائدہ گا کہ لوگ اپنے پاس موجود گندم، جو کھجوروں پر ہی قناعت کریں گے اور ذائقے کی تلاش میں سر گرداں نہیں ہوں گے۔ اس سے مہنگائی ختم ہو گی۔ عموما لوگوں کے پاس جنس ہی ہوتی ہے۔ پیسے کم ہی ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اعلیٰ سے اعلیٰ کے حصول کے چکر میں نہیں پڑیں گے اور سادگی اور قناعت کا دور دورہ ہو گا۔ معاشرہ افرا تفری سے محفوظ رہے گا۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ کی بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں کے بارے میں ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور ان کو ذخیرہ بھی کیا جا سکے۔ جبکہ اہل ظاہر کا مسلک اس حدیث سے بھی رد ہوتا ہے جس میں بیل پر لگے انگوروں کی بیع معین منقیٰ سے کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ایسی بیع میں بھی کمی بیشی کا خطرہ ہو سکتا ہے، حالانکہ منقیٰ یا انگور اس حدیث میں مذکور چھ چیزوں میں داخل نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کی رو سے ہوہا، پیتل وغیرہ بھی اس حکم میں آ جائیں گے، حالانکہ یہ چیزیں بذات خود فروخت ہونے کی بجائے عموما ان کی مصنوعات ہی فروخت ہوتی ہیں اور مصنوعات میں یہ حکم جاری کرنا تقریباََ نا ممکن ہے کیونکہ وہاں سودا صرف مادے کا نہیں بلکہ کار یگری اور مہارت کا بھی ہوتا ہے۔7) ’’ایک منزل میں‘‘ ان الفاظ ظاہرََا گھر بھی مراد ہو سکتا ہے۔ اور سفر کی منزل بھی، بھی، یہ دوسرا معنی ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی مذکورہ بالا تفصیلی حدیث: ۵۸۷ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دشمنوں کے ساتھ ایک لڑائی کے موقع پر پیش آیا اور وہ یقینا سفر میں تھے۔ 1)گندم کے بدلے گندم بیچنی شرعاََ جائز ہے بشر طیکہ دونوں طرف سے گندم برابر ہو، نیز فریقین اسے اسی مجلس میں اپنے اپنے قبضے میں بھی لے لیں۔2) اس حدیث مبارکہ مختلف طرق (سندیں) دیکھنے سے بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے جو عہد وفا باندھا تھا اسے نہ صرف نبھایا بلکہ وفا کا حق ادا کر دیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی اس کے تقاضے پورے کیے، خواہ اس ایفائے عہد سے ان کے کسی امیر کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو یا گواری محسوس ہوتی ہو۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی انھی جلیل القدر عظماء میں سے تھے جنھوں نے نبی ﷺ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے معالے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حدیث بیان کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک غزوے میں لوگوں کو بہت سی غنیمتیں حاصل ہوئیں۔ غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے۔ اس وقت ان لوگوں کے امیر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور انھوں نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو، وہ چاندی کے برتن جو بطور غنیمت ملے تھے، وہ برتن بیچ دے اور لوگوں کو بیت المال سے جو عطایا ملتے تھے جب وہ ملیں گے تو اس وقت ان چاندی کے برتنوں کی قیمت ان سے وصولی کر لی جائے گی۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ یہ سودا کرنا شروع کر دیا۔ سیدنا عبادہ بن صامت تک یہ بات پہنچی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ حدیث سنا دی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سونے چاندی کی بیع ادھار پر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ان کی خریدو فروخت نقد کی صورت میں ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے چاندی کے جو برتن ان سے خرید لیے تھے واپس کر دیے اور سودا ختم کر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنی ہوتیں، حالانکہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر پھر کھڑے ہو گئے اور وہی حدیث مبارکہ دوبارہ سنا دی جو انھوں نے پہلے سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ہم نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے وہ ضرور بیان کریں گے، خواہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتنا ہی نا گوار گزرے یا فرمایا کہ اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی ذلت محسوس کریں اور ساتھ ہی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ یہ مسئلہ بیان کرنے کی وجہ سے اگر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایک رات بھی نہ رہ سکوں تو مجھے اس کی قطعاََ کوئی پروا نہیں۔ میں نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سن رکھا ہے، وہ ضرور بیان کروں گا، خواہ آج کا کوئی حکمران اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے حق پر جو بھاری ذمہ داری عائد کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کھل کر بیان کریں، حق کو قطعاََ نہ چھپائیں، نیز عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے والیل بن جائیں اور دنیا میں بن کر رہیں۔3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنن کی تبلیغ کا خصوصی اہتمام کیا جائے علم رسول پھیلا یا جائے چاہے کوئی بڑے سے بڑے بڑا شخص اس کو نا پسند ہی کرتا ہو۔ حق بات برملا اور سب کے سامنے کہنی چاہیے۔4) حدیث مبارکہ سے مذکورہ اشیاء کی باہمی خرید و فروخت کا جواز بھی نکلتا ہے۔ ہم جنس اشیاء میں برابری اور تقابض کی شرط ہے۔ لیکن اگر جنس مختلف ہو جائے تو ان میں کمی بیشی تو جائز ہے لیکن سودے کا ہاتھوں ہاتھ ہونا شرط ہے۔5) اس حدیث مبارکہ سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو گندم اور جو، کو ایک ہی جنس شمار کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک جنس نہیں بلکہ دو مختلف جنسیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ الفاظ اس کی صریح دلیل ہیں، آپ نے فرمایا: ’’گندم کے عوض جو اور جو کے عوض گندم بیچ سکتے ہو جس طرح چاہو بشر طیکہ سودا نقدبہ نقد ہو، یعنی ادھار کسی طرف سے نہ ہو۔6)‘‘ مذکورہ چھ چیزوں میں کمی بیشی تو واقعی سود ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ان چھ کے علاوہ دوسری کون سی اشیاء میں کمی بیشی سود میں شمار ہو گی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تمام مکیلات و موزونات (جن چیزیں کھانے اور خوراک کے کام آتی ہیں) اس حکم کے تحت داخل ہیں بشر طیکہ ان کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے دونوں قیود کو ملحوظ رکھا ہے، یعنی وہ مکیلہ و موزون بھی ہوں خوراک بھی ہوں۔ اہل ظرہر کا موقف ہے کہ سود صرف ان مذکورہ چھ چیزوں میں منحصر ہے۔ ان کے علاوہ کسی بھی چیز میں کمی بیشی سود شمار نہیں ہو گی، مگر یہ بات عقلی طور پر قابل قبول نہیں کیونکہ شریعت کے احکام کسی نہ کسی مقصد کی خاطر لاگو ہوتے ہیں۔ مذکورہ چیزوں کی بیع کمی بیشی کے ساتھ روکنے میں ایک مقصد سادگی اور قناعت پسندی بھی ہے۔ ظاہر ہے اچھی گندم نا قص گندم کے مقابلے میں ملنے سے تو رہی۔ کوئی شخص بھی ردی کھجوروں کے مقابلے میں اعلیٰ قسم کی کھجوریں نہیں دے گا۔ مذکور قسم کی بیع سے روکنے کا یہ کا فائدہ گا کہ لوگ اپنے پاس موجود گندم، جو کھجوروں پر ہی قناعت کریں گے اور ذائقے کی تلاش میں سر گرداں نہیں ہوں گے۔ اس سے مہنگائی ختم ہو گی۔ عموما لوگوں کے پاس جنس ہی ہوتی ہے۔ پیسے کم ہی ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اعلیٰ سے اعلیٰ کے حصول کے چکر میں نہیں پڑیں گے اور سادگی اور قناعت کا دور دورہ ہو گا۔ معاشرہ افرا تفری سے محفوظ رہے گا۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ کی بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں کے بارے میں ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور ان کو ذخیرہ بھی کیا جا سکے۔ جبکہ اہل ظاہر کا مسلک اس حدیث سے بھی رد ہوتا ہے جس میں بیل پر لگے انگوروں کی بیع معین منقیٰ سے کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ایسی بیع میں بھی کمی بیشی کا خطرہ ہو سکتا ہے، حالانکہ منقیٰ یا انگور اس حدیث میں مذکور چھ چیزوں میں داخل نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کی رو سے ہوہا، پیتل وغیرہ بھی اس حکم میں آ جائیں گے، حالانکہ یہ چیزیں بذات خود فروخت ہونے کی بجائے عموما ان کی مصنوعات ہی فروخت ہوتی ہیں اور مصنوعات میں یہ حکم جاری کرنا تقریباََ نا ممکن ہے کیونکہ وہاں سودا صرف مادے کا نہیں بلکہ کار یگری اور مہارت کا بھی ہوتا ہے۔7) ’’ایک منزل میں‘‘ ان الفاظ ظاہرََا گھر بھی مراد ہو سکتا ہے۔ اور سفر کی منزل بھی، بھی، یہ دوسرا معنی ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی مذکورہ بالا تفصیلی حدیث: ۵۸۷ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دشمنوں کے ساتھ ایک لڑائی کے موقع پر پیش آیا اور وہ یقینا سفر میں تھے۔