سنن النسائي - حدیث 4562

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ التَّمْرِ بِالتَّمْرِ مُتَفَاضِلًا صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4562

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب: کھجور کی بیع کھجور کے بدلے میں کمی بیشی کے ساتھ (جائز نہیں) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سونے کا سودا چاندی کے ساتھ سود ہے الا یہ کہ نقد سود نہیں۔ گندم کا سودا گندم کے ساتھ سود ہے الا یہ کہ نقد ہو۔ اور جو کا سودا جو کے ساتھ سود ہے الا یہ کہ سودا نقد ہو۔‘‘
تشریح : 1)اس حدیث میں وہ سود بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق خرید و فروخت سے ہوتا ہے۔ سود کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق لین دین، یعنی تھوڑی چیز قرض دے کر زیادہ چیز لینے کی شرط لگانا۔ اسے قرض کا سود کہتے ہیں۔ خرید و فروخت میں سود یہ ہے کہ دونوں طرف ایک ہی جنس ہو مگر ان میں کمی بیشی کی جائے یا ادھار ہو، سودا نقد نہ ہو، جیسے مندرجہ بالا روایت میں مثالیں دے کر واضح کر دیا گیا ہے، یا پھر جنس تو مختلف ہو مگر سودا ادھار ہو، جیسے کہ پہلی مثال میں صراحت ہے کہ سونا چاندی کے عوض بھی سود ہے جبکہ سودا نقد نہ ہو کیونکہ چیزوں اور جنسوں کے بھاؤ بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا جب دونوں طرف ایک ہی جنس ہو یا مختلف جنسیں ہوں، ادھار قطعاََ نہیں ہونا چاہیے، البتہ اگر اجناس مختلف ہوں تو کمی بیشی جائز ہے۔ اگر سودا روپے پیسے کے ساتھ کسی جنس کا ہو، مثلاََ: کھجور، گندم ، جو وغیرہ کا تو اس میں ادھار بھی جائز ہے۔2) ’’مگر نقد‘‘ عربی میں لفظ ہیں: یعنی دونوں یہ کہیں تو لازماََ سودا نقد ہوگا، اس لیے لازم معنی کیا گیا ہے۔ 1)اس حدیث میں وہ سود بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق خرید و فروخت سے ہوتا ہے۔ سود کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق لین دین، یعنی تھوڑی چیز قرض دے کر زیادہ چیز لینے کی شرط لگانا۔ اسے قرض کا سود کہتے ہیں۔ خرید و فروخت میں سود یہ ہے کہ دونوں طرف ایک ہی جنس ہو مگر ان میں کمی بیشی کی جائے یا ادھار ہو، سودا نقد نہ ہو، جیسے مندرجہ بالا روایت میں مثالیں دے کر واضح کر دیا گیا ہے، یا پھر جنس تو مختلف ہو مگر سودا ادھار ہو، جیسے کہ پہلی مثال میں صراحت ہے کہ سونا چاندی کے عوض بھی سود ہے جبکہ سودا نقد نہ ہو کیونکہ چیزوں اور جنسوں کے بھاؤ بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا جب دونوں طرف ایک ہی جنس ہو یا مختلف جنسیں ہوں، ادھار قطعاََ نہیں ہونا چاہیے، البتہ اگر اجناس مختلف ہوں تو کمی بیشی جائز ہے۔ اگر سودا روپے پیسے کے ساتھ کسی جنس کا ہو، مثلاََ: کھجور، گندم ، جو وغیرہ کا تو اس میں ادھار بھی جائز ہے۔2) ’’مگر نقد‘‘ عربی میں لفظ ہیں: یعنی دونوں یہ کہیں تو لازماََ سودا نقد ہوگا، اس لیے لازم معنی کیا گیا ہے۔