سنن النسائي - حدیث 4542

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَابُ بَيْعِ الْعَرَايَا بِخِرْصِهَا تَمْرًا صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا تُبَاعُ بِخِرْصِهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4542

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب:۔ عرایا (عطیہ کے درختوں) کا پھل اندازا ان کے برابر خشک کھجوروں خشک کھجوروں کے عوض بیچنا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رخصت عطا فرمائی کہ عطیہ کے درختوں کا پھل اندازا ان کے برابر خشک کھجوروں کے عوض بیچایا خریدا جا سکتا ہے۔
تشریح : عرایا عریہ کی جمع ہے۔ عریہ اس درخت کو کہتے ہیں جسے باغ والا کسی غریب شخص کو پھل کھانے کے لیے دے دے۔ درخت اصل مالک ہی کا رہتا ہے۔ اس ایک درخت کی دیکھ بھال وغیرہ کے لیے غریب شخص کو بار بار باغ میں جانا پڑے گا۔ اس سے اس غریب شخص یا باغ والے کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، لہٰذا شریعت نے اجازت دی کہ وہ باغ والا اس درخت پر لگے ہوئے پھل کے عوض اس غریب شخص کو اندازا اتنی خشک یا تازہ کھجوریں دے دے اور درخت واپس لے لے۔ یہ ہے تو مزابنہ کی صورت جو عموماََ ممنوع ہے مگر شریعت لوگوں کی مجبوریوں کا بھی لحاظ رکھتی ہے، اس لیے غریب کے مفاد کی خاطر تھوڑی مقدار (پانچ وسق، یعنی پندرہ بیس من) میں اس بیع کی اجازت دی لیکن اس سے زائد تھارتی مقاصد کے لیے یہ بیع جائز نہیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے، فوائد و مسائل حدیث: ۳۹۱۰) عرایا عریہ کی جمع ہے۔ عریہ اس درخت کو کہتے ہیں جسے باغ والا کسی غریب شخص کو پھل کھانے کے لیے دے دے۔ درخت اصل مالک ہی کا رہتا ہے۔ اس ایک درخت کی دیکھ بھال وغیرہ کے لیے غریب شخص کو بار بار باغ میں جانا پڑے گا۔ اس سے اس غریب شخص یا باغ والے کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، لہٰذا شریعت نے اجازت دی کہ وہ باغ والا اس درخت پر لگے ہوئے پھل کے عوض اس غریب شخص کو اندازا اتنی خشک یا تازہ کھجوریں دے دے اور درخت واپس لے لے۔ یہ ہے تو مزابنہ کی صورت جو عموماََ ممنوع ہے مگر شریعت لوگوں کی مجبوریوں کا بھی لحاظ رکھتی ہے، اس لیے غریب کے مفاد کی خاطر تھوڑی مقدار (پانچ وسق، یعنی پندرہ بیس من) میں اس بیع کی اجازت دی لیکن اس سے زائد تھارتی مقاصد کے لیے یہ بیع جائز نہیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے، فوائد و مسائل حدیث: ۳۹۱۰)