سنن النسائي - حدیث 4536

كِتَابُ الْبُيُوعِ بَيْعُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ و قَالَ ابْنُ عُمَرَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4536

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل باب۔ کھجور کے (درخت پر لگے ہوئے) تازہ پھل کا خشک کھجوروں سے سودا کرنا حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خشک کھجوروں کے بدلے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کے سودے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: مجھے حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے عطیے کے درختوں میں اس سودے کی رخصت دی ہے۔
تشریح : ) تازہ اور خشک کھجور کی آپس میں خرید و فروخت ممنوع ہے کیونکہ تازہ کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جائے گی اور ہم جنس چیز میں کمی بیشی جائز نہیں۔ ہاں بیع عرایا میں تازہ کھجور کا خشک کھجور کے ساتھ سودا کرنا درست ہے، اس لیے کہ میں فریقین، یعنی عطیہ دینے اور قبول کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی کیونکہ عطیہ کرنے والے، عطیہ نہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔2) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب ایک ہی جنس کا تازہ پھل خشک ہو کر وزن میں کم ہو جاتا ہو تو اس جنس کے خشک اور تر (تازہ) پھل کی باہمی بیع حرام ہے اگر چہ سودا کرتے وقت دونوں (پھل) وزن اور کیل (ماپ) میں برابر ہی ہوں۔ اس کی وجہ یہ کہ ہے تساوی، یعنی باہمی برابری کا اعتبار اس وقت معبتر اور صحیح ہوتا ہے جب وہ اشیاء حالت کمال کو پہنچ کر بھی برابر ہی رہیں اور ادھر یہ بات نہیں کیونکہ کھجور جب خشک ہو جاتی ہے تو اس وزن بہر صورت تازہ حالت کی نسبت کم ہو جاتا ہے اور پھر اس تعین بھی نا ممکن ہے کہ وزن کتنا کم ہوتا ہے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وزن اور ماپ برابر برابر ہونے کی صورت میں خشک اور تازہ کھجور کے باہمی سودے کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ صاحبین (امام صاحب کے شاگردان امام محمد بن حسن اور امام ابو یوسف اس مسئلے میں اپنے استاد محترم کی مخالفت کرتے ہیں اور اس مسئلے میں مما نعت کی بابت وارد صحیح احادیث کی بنیاد پر انھوں نے حدیث رسول کو قبول اور اپنے استاد صاحب کی بات کو رد کر دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: 3)اس قسم کی بیع کو مزابنہ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماََ تو منع ہے مگر عریہ (عطیہ میں دیے گئے درخت) میں غرباء کی سہولت کے لیے رخصت دی گئی ہے جیسا کہ تفصیل فائدہ نمبرا میں بیان ہو چکی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر 3910 ) تازہ اور خشک کھجور کی آپس میں خرید و فروخت ممنوع ہے کیونکہ تازہ کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جائے گی اور ہم جنس چیز میں کمی بیشی جائز نہیں۔ ہاں بیع عرایا میں تازہ کھجور کا خشک کھجور کے ساتھ سودا کرنا درست ہے، اس لیے کہ میں فریقین، یعنی عطیہ دینے اور قبول کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی کیونکہ عطیہ کرنے والے، عطیہ نہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔2) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب ایک ہی جنس کا تازہ پھل خشک ہو کر وزن میں کم ہو جاتا ہو تو اس جنس کے خشک اور تر (تازہ) پھل کی باہمی بیع حرام ہے اگر چہ سودا کرتے وقت دونوں (پھل) وزن اور کیل (ماپ) میں برابر ہی ہوں۔ اس کی وجہ یہ کہ ہے تساوی، یعنی باہمی برابری کا اعتبار اس وقت معبتر اور صحیح ہوتا ہے جب وہ اشیاء حالت کمال کو پہنچ کر بھی برابر ہی رہیں اور ادھر یہ بات نہیں کیونکہ کھجور جب خشک ہو جاتی ہے تو اس وزن بہر صورت تازہ حالت کی نسبت کم ہو جاتا ہے اور پھر اس تعین بھی نا ممکن ہے کہ وزن کتنا کم ہوتا ہے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وزن اور ماپ برابر برابر ہونے کی صورت میں خشک اور تازہ کھجور کے باہمی سودے کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ صاحبین (امام صاحب کے شاگردان امام محمد بن حسن اور امام ابو یوسف اس مسئلے میں اپنے استاد محترم کی مخالفت کرتے ہیں اور اس مسئلے میں مما نعت کی بابت وارد صحیح احادیث کی بنیاد پر انھوں نے حدیث رسول کو قبول اور اپنے استاد صاحب کی بات کو رد کر دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: 3)اس قسم کی بیع کو مزابنہ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماََ تو منع ہے مگر عریہ (عطیہ میں دیے گئے درخت) میں غرباء کی سہولت کے لیے رخصت دی گئی ہے جیسا کہ تفصیل فائدہ نمبرا میں بیان ہو چکی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر 3910