سنن النسائي - حدیث 4530

كِتَابُ الْبُيُوعِ شِرَاءُ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهَا عَلَى أَنْ يَقْطَعَهَا، وَلَا يَتْرُكَهَا إِلَى، أَوَانِ إِدْرَاكِهَا صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تُزْهِيَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا تُزْهِيَ قَالَ حَتَّى تَحْمَرَّ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ إِنْ مَنَعَ اللَّهُ الثَّمَرَةَ فَبِمَ يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مَالَ أَخِيهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4530

کتاب: خریدو فروخت سے متعلق احکام و مسائل بابــ:۔ صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اس شرط پر پھل خریدنا کہ خریدار انھیں (درختوں سے) کاٹ اور توڑلے گا، پکنے تک (درختوں پر) باقی نہیں رکھ چھوڑے گا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھل پکنے سے پہلے ان کو بیچنے سے منع فرمایا۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! پکنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ سرخ ہو جائیں (پکنے کے قریب ہو جائیں اور کسی قسم کی آفت کا احتمال نہ رہے۔ ‘‘) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھل روک لے تو تم میں سے کوئی کس بنا پر اپنے بھائی سے رقم لے گا؟ ‘‘
تشریح : 1) اس باب سے مئولف رحمہ اللہ کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ فوراََ کاٹ لینے کی شرط پر، پکنے سے پہلے پھلوں کی خریدہ فروخت جائز ہے لیکن اس صورت میں جب اس انتفاع ممکن ہو۔ امام شافعی، ہیں۔2) ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ لوگ اپنے باغ کا پھل کئی سال کے لیے بیچ دیتے ہیں تو یہ عمل اس حدیث کی رو ناجائز اور حرام ہے۔ جب موجود پھل، جو ابھی تک کھانے کے قابل نہیں ہوا، اس کی خرید و فروخت ممنوع ہے تو آئندہ سال یا کئی سالوں کا ٹھیکہ، جو کہ بالکل معدوم پھلوں کا ہوتا ہے، کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اس ممانعت کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اس میں نرا دھوکا ہی دھوکا ہے، نیز یہ مجہول چیز کی بیع ہے جو کہ شرعاََ ناجائز ہے۔ مزید بر آں یہ بھی کہ یہ ایک ایسی چیز کی بیع ہے جو بیچنے والے کے پاس نہیں ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو چیز تیرے پاس نہیں وہ مت بیچ۔3)‘‘ ’’سرخ ہو جائیں‘‘ یعنی پھل رنگ بدلنا شروع کر دیں، خواہ وہ سرخ ہونے لگیں یا زرد۔ اس سے معلوم ہوا کہ پکنے سے مراد مکمل پکنا نہیں بلکہ آفت سے محفوظ ہونا ہے ورنہ صرف رنگ بدلنے سے تو پھل مکمل پک نہیں جاتا۔ ہاں، پکنا شروع ہو جاتا ہے۔ گویا پکنے کا آغاز کافی ہے۔4) ’’کس بنا پر رقم لے گا؟‘‘ گویا اگر اس نے فوراََ پھل کاٹ لینا ہو تو رقم لے سکتا ہے کیونکہ آپ نے پھل پکنے سے رک جانے کی صورت میں رقم لینے سے روکا ہے۔ اگر فورََا کاٹ لیے جائیں تو پکنے کا مسئلہ ہی نہیں بنتا۔ باب پر اسی استد لال ہے اور یہی صحیح ہے۔ 1) اس باب سے مئولف رحمہ اللہ کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ فوراََ کاٹ لینے کی شرط پر، پکنے سے پہلے پھلوں کی خریدہ فروخت جائز ہے لیکن اس صورت میں جب اس انتفاع ممکن ہو۔ امام شافعی، ہیں۔2) ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ لوگ اپنے باغ کا پھل کئی سال کے لیے بیچ دیتے ہیں تو یہ عمل اس حدیث کی رو ناجائز اور حرام ہے۔ جب موجود پھل، جو ابھی تک کھانے کے قابل نہیں ہوا، اس کی خرید و فروخت ممنوع ہے تو آئندہ سال یا کئی سالوں کا ٹھیکہ، جو کہ بالکل معدوم پھلوں کا ہوتا ہے، کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اس ممانعت کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اس میں نرا دھوکا ہی دھوکا ہے، نیز یہ مجہول چیز کی بیع ہے جو کہ شرعاََ ناجائز ہے۔ مزید بر آں یہ بھی کہ یہ ایک ایسی چیز کی بیع ہے جو بیچنے والے کے پاس نہیں ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو چیز تیرے پاس نہیں وہ مت بیچ۔3)‘‘ ’’سرخ ہو جائیں‘‘ یعنی پھل رنگ بدلنا شروع کر دیں، خواہ وہ سرخ ہونے لگیں یا زرد۔ اس سے معلوم ہوا کہ پکنے سے مراد مکمل پکنا نہیں بلکہ آفت سے محفوظ ہونا ہے ورنہ صرف رنگ بدلنے سے تو پھل مکمل پک نہیں جاتا۔ ہاں، پکنا شروع ہو جاتا ہے۔ گویا پکنے کا آغاز کافی ہے۔4) ’’کس بنا پر رقم لے گا؟‘‘ گویا اگر اس نے فوراََ پھل کاٹ لینا ہو تو رقم لے سکتا ہے کیونکہ آپ نے پھل پکنے سے رک جانے کی صورت میں رقم لینے سے روکا ہے۔ اگر فورََا کاٹ لیے جائیں تو پکنے کا مسئلہ ہی نہیں بنتا۔ باب پر اسی استد لال ہے اور یہی صحیح ہے۔